قرآن و حدیث کی روشنی میں
اب دیکھیے کہ اس معاملہ میں قرآن وحدیث کی رہنمائی کیا ہے۔ قرآن میں یہود کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ خدا ان پر غضب ناک ہوا (اور ان پر دنیوی سزائیں بھیجیں)۔ ایسا اس لیے ہوا کہ وہ اپنے درمیان برائی کرنے والے کو برائی سے نہ روکتے تھے: كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنكَرٍ فَعَلُوهُ (5:79)۔ حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے۔ ایک حدیث ہم یہاں نقل کرتے ہیں :
إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ، أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4338؛ سنن الترمذی، حدیث نمبر 2307؛سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4005)۔یعنی، لوگ جب ظلم کرنے والے کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ ان پر اپنی سزا کو عام کردے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ’’ اجتماعی فساد‘‘ کا سبب ہمیشہ’’انفرادی فساد‘‘ہوتا ہے ۔ اس لیے اجتماعی فساد کو روکنے کی واحد تد بیر یہ ہے کہ انفرادی فساد کو روکا جائے ۔ اس ہدایت کے مطابق مسلم معاشرہ کو اتنا زندہ اور چوکنا رہنا چاہیےکہ اس کا کوئی آدمی اگر کوئی شرارت کرے تو فوراً آس پاس کے لوگ جاگ اٹھیں اور ابتدا ہی میں شریر کا ہاتھ پکڑ لیں۔ معاشرہ کا کوئی فرد اگر کسی آدمی کے ساتھ برائی کرے تو بقیہ لوگ غیر جانب دار بن کر نہ رہ جائیں۔ بلکہ وہ فور اًموقع پر پہنچیں اور برائی کرنے والے آدمی اور اس کی برائی کے درمیان حائل ہو جائیں۔ اگر وہ اس ابتدائی موقع پر بے تعلق ہو کر بیٹھ جائیں گے تو اس کے بعد یہ ہو گا کہ ایک آدمی کی شرارت ایسے عمومی فتنے بر پا کرے گی جس کی لپیٹ میں پوری قوم آجائے گی ۔
مذکورہ اسلامی ہدایت براہ راست طور پر آج کل کے فسادات پر چسپاں ہوتیہے مسلمان اپنی بڑھی ہوئی جذباتیت کی وجہ سے اکثر غلطی کرتے ہیں کہ ایک معمولی بات کو برداشت نہیں کر پاتے اور دوسرے سے لڑ جاتے ہیں۔ یہ دوسرا اگر خود اپنی قوم کا آدمی ہے تو اس کا نقصان اکثر ایک آدمی یا ایک خاندان تک محدود رہتا ہے۔ لیکن یہ دوسرا آدمی اگر دوسرے فرقہ سے تعلق رکھتا ہو تو ایک مسلمان کی جذباتی کارروائی فوراً پوری قوم کو مشتعل کر دیتی ہے۔ موقع پرست لیڈر اشتعال انگیز تقریریں کر کے اس کو فرقہ وارانہ مسئلہ بنا دیتے ہیں۔ اور اس کے بعد ایسا فساد برپا ہوتا ہے جو پوری کی پوری آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ علی گڑھ اور مراد آباد کا مذکورہ واقعہ اور اسی قسم کے دوسرے واقعات اس کا عملی ثبوت ہیں۔
چونکہ فسادات اکثر ان مقامات پر ہوتے ہیں جہاں مسلمان اقتصادی اعتبار سے نسبتاً بہتر ہیں۔ اس لیے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ مسلمانوں کی اقتصادیات کو بر باد کرنے کی منظم سازش کے تحت ہو رہا ہے ۔ حالانکہ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ مسلمان جن مقامات پر بہتر حیثیت میں ہیں وہیں وہ جذباتی حرکتیں بھی زیادہ کرتے ہیں۔ کسی آدمی کو پر جوش کارروائی کرنے کے لیے ہمیشہ سماجی پشت پنا ہی درکار ہوتی ہے اور یہ سماجی پشت پناہی ان مقامات کے مسلمانوں کو با آسانی مل جاتی ہے جہاں مسلمان اقتصادی اعتبار سے بہتر ہوں ۔ مسلمانوں کے آپس کے جھگڑے اور اختلافات بھی انہیں مقامات پر زیادہ ہوتے ہیں جہاں انھیں کسی قدر معاشی اعتماد حاصل ہے۔ اسی طرح مسلمان اور غیر مسلمان کا تصادم بھی اکثر انھیں مقامات پر پیش آتا ہے جہاں مسلمان عددی اور اقتصادی اعتبار سے اپنے کو محفوظ سمجھتے ہوں۔
مذکورہ اسلامی ہدایت کی روشنی میں دیکھیے تو فساد کے خلاف ہماری موجودہ تمام سرگرمیاں بالکل عبث قرار پاتی ہیں۔ کیونکہ یہ ہدایت ربانی کے خلاف ہیں۔ خدا اور رسول کا حکم ہے کہ اپنے آدمی کو ابتدائی شرارت کے وقت پکڑو۔ مگر ہمارے تمام قائدین صرف اس وقت متحرک ہوتے ہیں جب کہ فساد بڑھ کراپنی عمومی بر بادی تک پہنچ چکا ہو۔ ابتدائی چنگاری دینے والے کا ہاتھ پکڑنے کے لیے کوئی نہیں اٹھتا۔ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو ستاتا ہے تو کوئی بھی موقع پر پہنچ کر ظالم مسلمان کا ہاتھ نہیں پکڑتا ۔ حالانکہ اس قسم کے مظلوم مسلمان اکثر منفی جذبات کا شکار ہو کر ایسی کاروائیاں کرتے ہیں جس کی سزا پورے معاشرہ کو بھگتنی پڑتی ہے۔ اسی طرح جب ایک غیر مسلم سے شکایت پیدا ہونے پر ایک مسلمان اس کے خلاف تخریبی منصوبہ بناتا ہے۔ جب کچھ مسلمان غیر مسلموں کے سامنے یہ بے معنی مطالبہ لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ہماری نماز کے وقت اپنی عبادت گاہ کی گھنٹیاں نہ بجاؤ یا مسجد کے سامنے سے اپنا جلوس نہ لے جاؤ۔ تو ان مواقع پر مسلمانوں میں سے کوئی نہیں اٹھتا جو ایسے سر پھرے مسلمانوں کو روکے اور ان کو اس قسم کے برے افعال سے باز رکھے۔ البتہ جب ایک شخص کی برائی اپنا رد عمل ظاہر کر کے عمومی تباہی تک پہنچ چکی ہوتی ہے تو ساری مسلم قیادت میدان میں آجاتی ہے اور ہر ایک چاہتا ہے کہ وہ دوسرے سے آگے بڑھ جائے ۔ یہ طریقہ سرا سر اسلامی ہدایت کے خلاف ہے اور جو طریقہ اسلامی ہدایت کے خلاف ہو اس کا کوئی نتیجہ خدا کی اس دنیا میں ظاہر نہیں ہو سکتا۔ خدا چاہتا ہے کہ ہم ’’انفرادی فساد‘‘کے وقت متحرک ہوں مگر ہمارے تمام لیڈر صرف ’’ اجتماعی فساد‘‘ کے وقت متحرک ہوتے ہیں۔ یہ خدا کے بتائے ہوئے راستہ کے بجائے خود ساختہ راستہ پر چلنا ہے اور خود ساختہ راستہ پر چلنا خدا کے غضب کو دعوت دینا ہے، نہ کہ خدا کی نصرت کو اپنی طرف کھینچنا۔
ہمارے درمیان بے شمار تحریکیں اور جماعتیں قائم ہیں۔ ہر ایک دعوی ٰکرتی ہے کہ اس کا مقصد ہے :فسادات کا سدباب ، امت کا تحفظ، نظام صالح کا قیام ، انسانیت کی پیغام رسانی، وغیرہ ۔ یہ تحریکیں اور جماعتی بڑے بڑے جلسے کرتی ہیں ، الفاظ کے طوفان برپا کرتی ہیں۔ ان کے میمورنڈم اور بیانات اور تجویزوں سے گدام کے گدام بھر چکے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ لفظی مہم سے کبھی کوئی عملی واقعہ بر آمد نہیں ہوتا، یہ سب کچھ جو کیا جاتا ہے فسادات کے بعد کیا جاتا ہے ۔ ابتدائی چنگاری کو بجھانے کے لیے ان میں سے کوئی کبھی نہیں دوڑتا۔ حالاں کہ کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ ہر جماعت اور تحریک اور تمام اصلاح پسند شخصیتیں اپنے قریبی ماحول میں اپنے بھائیوں کی مسلسل نگرانی کریں۔ جہاں کوئی ایسا واقعہ ہو کہ ایک مسلمان کسی دوسرے پر کسی قسم کی دست درازی کرے ، خواہ وہ مسلمان اور مسلمان کے درمیان ہو یا مسلمان اور غیر مسلمان کے درمیان ، فوراً کچھ لوگ اس آدمی تک پہنچیں۔ علاقہ کے ذمہ دار لوگوں کو جمع کریں اور اس کی شرارت کو وہیں کا وہیں ختم کر دیں۔ مسلمان اگر ابتدائی موقع پر اس حرکت اور حساسیت کا ثبوت دیں جس کا مظاہرہ وہ فساد کے بعد کرتے ہیں تو فساد کی جڑ کٹ جائے اور کبھی اس ملک میں کوئی فساد نہ ہو۔
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ فسادات ہمیشہ سازش کے تحت ہوتے ہیں اور یہ سازش کچھ فرقہ پرست اور فسطائی جماعتیں کرتی ہیں۔ ان جماعتوں کا یہی مشن ہے اور اسی مقصد کے تحت انھوں نے اپنے آدمیوں کو تیار کر رکھا ہے۔ بالفرض یہ بات صحیح ہو تب بھی میں کہوں گا کہ یہ دنیا مقابلہ کی جگہ ہے۔ یہاں بہر حال ایسا ہوگا کہ ایک دوسرے کے خلاف تدبیریں کرے گا۔ اس لیے اصل کام ایسی جماعتوں کا انکشاف کر کے ان کے خلاف چیخ پکار کرنا نہیں ہے، بلکہ خاموش منصوبہ کے تحت ان کی کاٹ کے لیے اپنے کو مستعد کرتا ہے۔ تجربہ ثابت کرتا ہے کہ ہر گروہ کے خلاف اس کا حریف تدبیریں کرتا ہے اور ہر تدبیر کو دانش مندی کے ساتھ ختم کیا جا سکتا ہے۔ جولوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے لیے ہر طرف میدان خالی ہو اور ان کے خلاف کوئی سازش کرنے والا کہیں موجود نہ ہو ان کو خدا کی اس دنیا کو چھوڑ کر کوئی دوسری دنیا اپنے لیے بنانی چاہیے ۔ کیونکہ خدا نے اپنی دنیا جس قانون کے تحت بنائی ہے وہاں تو یہی ہوگا۔ پیغمبروں کے لیے بھی خدا نے اس معاملہ میں استثنا نہیں رکھا۔ پھر ہمارے لیے استثنا کیسے ہو سکتا ہے۔