فسادات کا پس منظر
ہمارے ملک میں جو فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں، عام طور پر ان کے آغاز میں ایک چھوٹا سا واقعہ ہوتا ہے۔ ایک چھوٹے واقعہ پر ہیبت ناک فساد کا پیدا ہو جانا اتفاقاً نہیں ہوتا۔ اس کے تاریخی اور نفسیاتی اسباب ہیں ۔ ہم خواہ اس کو مانیں یانہ مانیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ پڑوسی قوم میں ہمارے خلاف مستقل طور پر ایک حریفانہ جذبہ پیدا ہوگیا ہے ۔ اس کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب تقسیم کی سیاست ہے۔ ملک کی تقسیم بجائے خود برادران وطن کو مشتعل کرنے کے لیے کافی تھی۔ مزید یہ کہ تقسیم اس ڈھنگ سے ہوئی کہ تقسیم ہو کر بھی بہت سے نازک مسائل غیر حل شدہ حالت میں باقی رہ گئے ۔ اس طرح کے مختلف تاریخی اسباب میں جنھوں نے برادران وطن کو مسلسل طور پہ ہمارے خلاف مشتعل کر ر کھا ہے ۔ گویا ایک لاوا ہے جو دلوں میں چھپا ہوا ہے اور کوئی موقع پاتے ہی اچانک پھٹ پڑتا ہے۔
مجھے تسلیم ہے کہ کوئی شخص معقول بنیادوں پر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ تقسیم کی تحریک خود بھی فریق ثانی کے کسی عمل کار د عمل تھی ۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس دعوے کا عملی فائدہ کیا ہے۔ اس قسم کے دعوے کی اہمیت اس وقت ہوتی ہے جب کہ کسی مسئلہ کا صرف منطقی تجزیہ کرنا مقصود ہو ، آدمی کے حقیقی معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔ مگر جب کوئی معاملہ فوری زندگی کا معاملہ بن جائے تو ہر عقل مند آدمی کا یہ طریقہ ہے کہ وہ منطقی سلسلہ کو توڑ کر عملی پہلو کو سامنے رکھتا ہے تاکہ وہ اپنے عملی اقدام کے بارے میں کوئی فیصلہ لے سکے۔ دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے کی بحث کو اگر لمبا کیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا ہم اپنے اقدام کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر سکیں گے اور اصل مسئلہ بدستور اپنی جگہ باقی رہے گا۔ چھری اگر خربوزہ کی سطح تک پہنچ چکی ہو تو اس وقت منطق کی عدالت میں چھری کو ملزم ٹھہرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسے وقت میں اپنے کو فریق ثانی کی زد سے ہٹانے کا سوال ہوتا ہے، نہ کہ الفاظ کی دنیا میں فریق ثانی کو ذمہ دار ثابت کرنے کا۔ یہ ایک معلوم اورمسلمہ حقیقت ہے کہ کبھی منطقی تقاضے کے مقابلہ میں عملی پہلو زیادہ اہم ہوتا ہے، اور زیر بحث معاملہ میں صورت حال بلا شبہ یہی ہے۔
شہر کی ایک عمارت میں ایک مسلمان نے نیچے کا حصہ کرایہ پر لیا۔ کچھ دن کے بعد اس نے محسوس کیا کہ چھت ٹپک رہی ہے۔ اوپر کے حصہ میں جو صاحب رہتے تھے ان کا غسل خانہ ٹپکنے لگا تھا۔ مستقل پانی کا ٹپکنا ایک مصیبت تھا۔ مزید یہ کہ یہ گندا پانی تھا، کیونکہ غسل خانہ اور بیت الخلا دونوں ایک ساتھ ملے ہوئے تھے ۔ نیچے والے نے اوپر والے سے کہا تو انھوں نے کوئی توجہ نہ دی۔ اس کے بعد اس نے محلہ والوں سے کہا اور اپنی مصیبت ان کو دکھائی۔ مگر انھوں نے بھی کوئی دردمندی ظاہر نہ کی ۔ ایک شخص نے کہا ’’بھائی ، ہمارے شہر کا رواج تو یہ ہے کہ جس کے سر پر ٹپکے وہ بنوائے‘‘۔ کرایہ دار نے کہا کہ یہ تو کوئی بات نہیں۔ اصول یہ ہونا چاہیےکہ ’’ جو ٹپکائے وہ بنوائے ‘‘ ۔مگر اس نے محسوس کیا کہ اس کے دلائل بے زور ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ سارے لوگ مسلمان تھے ۔ اس نے قرآن وحدیث کے احکام سنائے مگر قرآن و حدیث کے الفاظ بھی ان کے دل کو پگھلانے کے لیے کافی ثابت نہ ہوئے ۔ کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ تم ان کے خلاف نوٹس دو اور مقدمہ قائم کرو ۔ مگر اس نے غور کیا تو مقدمہ کے اخراجات اور اس کی مدت اتنی زیادہ تھی کہ عملاً اس کے لیے اس کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ بالآخر اس نے اپنے پاس سے خرچ کر کے خود اس کو بنوا دیا۔
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ذاتی معاملہ میں آدمی کیا طریقہ اختیار کرتا ہے ۔ ذاتی معاملہ میں ہر آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ اس بحث میں نہیں پڑے تاکہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔ وہ جانتا ہے کہ موجودہ دنیا میں دلیل سے زیادہ کمزور کوئی چیز نہیں۔ دلیل سے خواہ کتنے ہی بڑے پیمانہ پرکسی کو ملزم ثابت کر دیا جائے عملاً اس سے کوئی مسلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ آج کی دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہے جو دلیل کے آگے اپنے کو جھکا دے۔ اس سلسلہ میں مسلمان اور غیر مسلمان حتی ٰکہ دین دار اور بے دین کا بھی کوئی فرق نہیں۔ یہ بات اپنے ذاتی معاملہ میں ہر شخص جانتا ہے۔ اس لیے جب کوئی ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر پانی اپنے سر ٹپکتا ہے ، تو وہ فوراً جان لیتا ہے کہ دلیل اور بحث سے کوئی فائدہ نہیں ۔ وہ اپنے آپ پر ذمہ داری لیتے ہوئے فوراً یہ کرتا ہے کہ معاملہ کو خود درست کر لیتا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ زندگی کا یہی سادہ اصول ملت کے معاملہ میں کوئی شخص اپنانے کے لیے تیار نہیں۔ملت کا سوال آتے ہی ہر شخص اس کوشش میں لگ جاتا ہے کہ وہ فریق ثانی کو ملزم ثابت کرے۔ یہ سنگین واقعہ بھی لوگوں کے جوش میں کوئی کمی نہ کر سکا کہ 35 سالہ کوشش کے باوجود ابھی تک اس طریق عمل کا کوئی فائدہ نہیں نکلا۔
یہ صورت حال اتفاقاً نہیں۔ اس کے گہرے اسباب ہیں۔ دوسرے کو ملزم ٹھہرانا سب سے آسان کام ہے اور خود ذمہ داری قبول کرنا اس کے مقابلہ میں اتنا ہی مشکل ہے۔ دوسرے کو ملزم ٹھہرانا ہو تو الفاظ بول کر ذمہ داری ادا ہو جاتی ہے ۔ مگر جب آدمی خود ذمہ داری قبول کرے تو پھر عمل اور جدو جہد کے طویل تقاضے سامنے آجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے قائدین صرف الفاظ بول کر قیادت کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں ۔ وہ کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر وہ فی الواقع کرنے کی تڑپ رکھتے تو ان کا اندازہ بالکل دوسرا ہوتا ۔
زندگی کا راز یہ ہے کہ حالات کے اندر موجود عوامل کو استعمال کیا جائے۔ اور حالات کے غیر معمولی بگاڑ کے باوجود یہاں ایسے عوامل موجود ہیں جن کو ہم اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دو فریقوں کے درمیان خواہ کتنی ہی تلخ یادیں ہوں ، زندگی کے روزمرہ کے مسائل ان پر غالب آ جاتے ہیں۔ برادران وطن کے معاملہ میں اس عامل کی اور بھی زیادہ اہمیت ہے۔ کیونکہ ’’ زر ‘‘ ان کے نزدیک معبود کا درجہ رکھتا ہے۔ ان کا ہر آدمی سب سے زیادہ جس چیز کو پانا چاہتا ہے وہ دولت ہے۔ ان کی خوش قسمتی سے ملک میں دولت حاصل کرنے کے تمام بڑے ذرائع پر ان کا مکمل قبضہ ہو چکا ہے۔ حتی کہ خود مسلمان ان کی دولت کی فراہمی کے عمل میں ایک معاون پرزہ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔ یہ اس ملک میں فساد کے خلاف سب سے بڑا روگ ہے کیونکہ فساد کاروبار کے سارے نظام کو درہم برہم کر دیتا ہے ۔ پھر جن لوگوں کا اصل مقصد پیسہ کمانا ہو وہ اپنے ملے ہوئے مقصد کو خود اپنے ہاتھوں ویران کرنا کیوں پسند کریں گے۔
مراد آباد کی مثال لیجیے، جہاں اگست 1980 میں بھیانک فساد ہوا ۔ مراد آباد ایک صنعتی شہر ہے، یہاں سے سالانہ تقریباً 60 کرور روپے کا سامان تیار ہو کر باہر جاتا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ سامان بنانے کا کام سب کا سب مسلمان کرتے ہیں۔ مگر کاروبار عملاً دوسرے فرقہ کے ہاتھ میں ہے ۔ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ خام مال کی سپلائی اور تیار شدہ سامان کی فروخت دونوں کام کا تقریباً90فی صد حصہ دوسرے فرقہ کے قبضہ میں ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ کارخانوں میں دھویں اور گندگی کے درمیان ساری مشقت مسلمان اٹھاتے ہیں اور دوسرا فرقہ ان کی محنت کے بل پر کروڑوں روپے کما رہا ہے۔ ایک زر پرست قوم کو اس کا مطلوب جب اتنے شان دار طریقہ پر مل رہا ہو تو وہ آخر فساد کیوں چاہے گی ۔ وہ بازار کو ویران کر کے اپنے ملتے ہوئے فائدہ کو بھنگ کس لیے کرے گی ۔
اس کے بادہ خود اس ملک میں فساد ہوتا ہے۔ حتی کہ 1947ے لے کر اب تک تقریباً 10 ہزار فسادات ہو چکے ہیں ۔ اس کی وجہ بالکل سادہ ہے۔ وہ یہ کہ ہر آدمی دو آدمی ہوتا ہے۔ ایک غصہ دلانے سے پہلے، دوسرا غصہ دلانے کے بعد یہ بظاہر سیدھا سادا آدمی بھی غصہ میں آنے کے بعد بھیڑیا بن جاتا ہے۔ یہ فرق ہرآدمی میں پایا جاتا ہے۔ پھر جب کسی اشتعال انگیز واقعہ کے بعد اس شخص یا گروہ کا دوسرا انسان جاگ اٹھے جس کے اندر فریق ثانی کے لیے پہلے سے نفرت کے اسباب چھپے ہوئے تھے اور وہ اس کے مقابلہ میں طاقتور بھی ہو تو اس کے بعد وہ جو کچھ کرے گا وہ وہی ہوگا جس کا نمونہ ہم پچھلے 35 سال سے دیکھ رہے ہیں ۔
زر پرستی آدمی کے اندر انفرادیت پیدا کرتی ہے۔ اس لیے ایک شخص کی طرف سے کسی کے خلاف ابتدائی اشتعال کا واقعہ پیش آنے کے بعد بھی شاید ایسانہ ہوتا کہ ایک فرقہ میں عمومی سطح پر اشتعال وانتقام کی فضا پیدا ہو جائے۔ مگر یہاں بقیہ کمی کو سیاسی لیڈر پوری کر دیتے ہیں۔ ہر بار جب الیکشن ہوتا ہے تو فطری طور پر کوئی جیتتا ہے اور کوئی ہارتا ہے ۔ اب جو ہارنے والے لیڈر ہیں وہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ کوئی موقع ملے تو اس کو ہوا دے کر عمومی فساد کرا دیں۔ تاکہ ایک طرف جیتی ہوئی حکمراں پارٹی کو بدنام کیا جائے اور دوسری طرف ان دوٹروں کو سزادی جائے جنھوں نے ان کو ووٹ نہیں دیا۔ اور بدقسمتی سے یہ ووٹ نہ دینے والے اکثر مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ اگر ہر فساد نہیں تو اکثر فساد کے پیچھے یہی الیکشنی سیاست کار فرما ہوتی ہے ۔ ایک ایسا ملک جہاں لوگ اپنی مرضی کے خلاف فیصلہ قبول کرنے پر راضی نہ ہوں وہاں الیکشن مسئلہ کو ختم نہیں کرتا بلکہ مسئلہ کوئی صورت میں زندہ رکھنے کا سبب بن جاتا ہے۔