سابق اہل کتاب کی مثال
اب اس سلسلہ میں ایک اور آیت کا مطالعہ کیجیے ۔ سورہ بقرہ میں یہود کو خطاب کر کے ارشاد ہوا ہے ہم نے تم سے عہد لیا تھا کہ تم اپنوں کا خون نہ بہاؤ گے اور اپنے لوگوں کو گھر سے بے گھر نہ کرو گے ۔ تم نے اس کا اقرار کیا اور تم خود اس کے گواہ ہو ۔ پھر تم ہی وہ ہو کہ اپنوں کو قتل کرتے ہو اور اپنے ایک گروہ کو ان کی بستیوں سے نکالتے ہو۔ ان کے خلاف گناہ اور زیادتی کر کے ان کے دشمنوں کی مدد کرتے ہو۔ پھر اگر وہ تمھارے پاس قیدی ہو کر آتے ہیں تو ان کا فدیہ دے کر چھڑاتے ہو ۔ حالانکہ ان کا نکالنا ہی تم پر حرام تھا۔ کیا تم کتاب الٰہی کے ایک حصہ کو مانتے ہو اور اس کے دوسرے حصہ کا انکار کرتے ہو۔ پس تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں رسوا ہوں اور آخرت کے دن سخت ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں اور اللہ اس سے بے خبر نہیں جو تم کرتے ہو (2:84-85)۔
قدیم مدینہ میں دو عرب قبیلے (اوس اور خزرج) آباد تھے۔ اس کے علاوہ کچھ یہودی قبیلے (بنو نضیر، بنو قریظہ ، بنو قینقاع) تھے جو باہر سے آکر یہاں بس گئے تھے۔ ان یہودی قبائل نے اپنے تعصبات اور قومی اغراض کے تحت عرب قبیلوں سے حلیفانہ تعلقات قائم کر رکھے تھے ۔ عرب قبائل جب باہم لڑتے تو یہودی قبیلے بھی اپنے اپنے مشرک حلیفوں کے ساتھ مل جاتے اور اس طرح دو عرب محاذوں میں شریک ہو کر ایک یہودی قبیلہ دوسرے یہودی قبیلہ سے جنگ کرتا ہجرت نبویؐ سے چند سال پہلے مدینہ میں جنگ بعاث ہوئی جو مدینہ کے مشرک قبائل کی باہمی جنگ تھی۔ اس جنگ میں یہود کے قبیلہ بنو نضیر اور بنو قریظہ نے اوس کا ساتھ دیا اور بنو قینقاع نے خزرج کا ۔ اس طرح اوس اور خزرج کی باہمی جنگ میں خود یہودی بھی باہم ایک دوسرے کے خلاف لڑ پڑے۔
اس قسم کی باہمی مقابلہ آرائی سراسر شریعت الٰہی کے خلاف تھی ۔ مگر جب جنگ ختم ہوتی تو دونوں طرف کے یہودی لیڈر’’ امدادی کام‘‘ شروع کر دیتے تاکہ ملت یہود کے لیے جہاد کرنے کا ثواب بھی انھیں مل جائے ۔ اس جاہلانہ معرکہ آرائی میں جب ایک یہودی قبیلے کے لوگ دوسرے قبیلے کے ہاتھ قید ہو جاتے تو مغلوب قبیلہ فدیہ دے کر اپنے دینی بھائیوں کو دشمنوں کے ہاتھ سے چھڑاتا اور اپنے اس عمل کے لیے تو رات کے احکام کا حوالہ دیتا جن میں ایک یہودی پر دوسرے یہودی کی مدد کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ حالاں کہ یہ ایساہی تھا جیسے ایک شخص کسی مسلمان کو قتل کر دے اور اس کے بعد خداا و رسول کا نام لے کر اس کی نماز جنازہ ادا کرے۔ قرآن میں اس طرز عمل کی بابت کہا گیا کہ یہ حکم خداوندی کے ایک جزءکو مانا اور حکم خداوندی کے دوسرے جزء کا انکار کرتا ہے۔ کیوں کہ یہودی خدا کے اس حکم کو تو شوق سے لے رہے تھے کہ ملت یہود کے مظلوموں کی مدد کرو مگر اسی خدا کے اس حکم کو وہ اپنی زندگی سے خارج کیےہوئے تھے کہ ان راستوں پر مت چلو جوملت کے اندر باہمی ٹکراؤ پیداکرتے ہیں اور نتیجہ ملت کے افراد کو مظلوم بناتے ہیں۔ قرآن میں اعلان کیا گیا کہ حکم الہٰی میں اس طرح کی تقسیم کسی کو اللہ کی نظرمیں سزا کا مستحق بناتی ہے، نہ کہ انعام کا۔
یہی صورت حال آج خود مسلمانوں میں جاری ہے اور نہ صرف کسی ایک ملک میں بلکہ تمام دنیا کی مسلم اقوام پر چسپاں ہوتی ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں حکومت کی سطح پر حلیفانہ گروہ بندیاں اور جماعتوں کی سطح پر متحدہ محاذ کی سیاست براہ راست طور پر وہی چیز ہے جس کی یہود کے سلسلے میں مذمت کی گئی ہے۔ آج ہر جگہ یہ حال ہے کہ مسلمان غیر مسلم قوموں یا غیر اسلامی طاقتوں کے ساتھ مل کر آپس میں ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں مسلم حکومتوں میں کوئی روسی کیمپ سے مل گیا ہے اور غیر روسی کیمپ میں شامل مسلم ملک پر چڑھائی کر رہا ہے اور کوئی امریکی کیمپ سے ملا ہوا ہے اور غیر امریکی کیمپ کے مسلم ملک کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ مسلم جماعتوں کا یہ حال ہے کہ کوئی جماعت سوشلسٹ عناصر سے مل کر غیر سوشلسٹ مسلم جماعتوں کے خلاف برسر پیکار ہے اور کوئی جماعت سیکولر عناصر سے مل کر غیر سیکو لرکیمپ کی مسلم جماعتوں کے خلاف تخریبی کارروائیاں جاری کیےہوئے ہے۔ یہی حال ہمارے ملک میں، خاص طور پر الیکشن کے مواقع پر ہوتا ہے۔ کچھ مسلمان حکمراں سیاسی پارٹی سے مل کر اپوزیشن پارٹیوں اور ان سے اتحاد کرنے والے مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیتے ہیں اور کچھ مسلمان اپوزیشن پارٹیوں سے مل کر حکمراں پارٹی اور اس سے وابستہ مسلمانوں کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس جاہلی جنگ کے نتیجہ میں جب مسلمانوں کی بربادی سامنے آتی ہے تو ان میں سے ہر ایک ملی جہاد کے لیے دوڑتا ہے ، ہر ایک امدادی کام میں دوسرے سے آگے بڑھ جانا چاہتا ہے۔
ہمارے ملک میں ہونے والے فسادات کم از کم وقتی سبب کی حد تک ، اکثر انھیں انتخابی محاذ آرائیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ مسلمان ان مواقع پر غیرمسلم پارٹیوں کے ساتھ مل کر دو جتھوں میں بٹ جاتے ہیں۔ ایک طرف ’’ اوس‘‘ کا سیاسی محاذ ہوتا ہے اور دوسری طرف ’’خزرج‘‘ کا سیاسی محاذ کچھ مسلمان ایک طرف کے محاذ میں شامل ہو جاتے ہیں اور کچھ دوسری طرف کے محاذ میں ۔ اور پھر دونوں ایک دوسرے کو ہرانے اور نیچا دکھانے کے لیے اپنی ساری طاقت لگا دیتے ہیں۔ جب الیکشن کا معرکہ ختم ہوتا ہے تو وہ صرف جیتنے والوں کے لیے ختم ہوتا ہے۔ ہارنے والوں کے لیے وہ دوبارہ نئی صورت میں شروع ہو جاتا ہے۔ اب ہارے ہوتے لیڈر جیتی ہوئی پارٹی کو بے اعتبار ثابت کرنے اور اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے میدان میں نکل آتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہارے ہوئے لیڈر جو کارروائیاں کرتے ہیں انھیں میں سے ایک فرقہ وارانہ فساد بھی ہے۔
اس لحاظ سے دیکھیے تو فرقہ وارانہ فسادات کے بعد مسلم قائدین کی طرف سے کیا جانے والا امدادی کام اور ملی جہاد براہ راست طور پر قرآن کے ان الفاظ کا مصداق ہے کہ: أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ(2:85) ۔یعنی ،کیا تم کتاب الٰہی کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک حصے کا انکار کرتے ہو۔ خدا کے اس حکم کی تم کو پر وا نہیں کہ تم اغیار کے ساتھ مل کر آپس میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی نہ کرو۔ اور جب جاہلانہ محاذ آرائی کے نتیجہ میں فسادرونما ہوتا ہے تو قرآن وحدیث کی تلاوت کرتے ہوئے اعانت مظلومین کے لیے نکل پڑتے ہو۔ یہ حکم خداوندی کی تعمیل نہیں بلکہ سستی لیڈری ہے ۔ اور خدا کا انعام کسی کو خدا کے حکم کی تعمیل پر ملتا ہے، نہ کہ لیڈرانہ کارروائیوں پر ۔