اَمانی،عمل

مفسر ابن کثیر نے نقل کیا ہے کہ کچھ مسلمان اور اہلِ کتاب (یہود ونصاریٰ) باہم ملے اور انھوں نے ایک دوسرے پر فخر کیا (إن المسلمین وأہل الکتاب افتخروا)۔ اہل کتاب نے کہا کہ ہمارا نبی تمھارے نبی سے پہلے ہے اور ہماری کتاب تمھاری کتاب سے پہلے ہے، ہم اللہ کے زیادہ قریبی لوگ ہیں،وغیرہ۔ مسلمانوں نے کہا کہ ہم اللہ کے زیادہ قریبی ہیں۔ کیوں کہ ہمارا نبی تمام نبیوں کا خاتم ہے اور ہماری کتاب تمام کتابوں کی ناسخ ہے۔ اس پر قرآن کی وہ آیتیں اتریں، جن کا ترجمہ یہ ہے:

نہ تمھاری آرزوؤں (امانی) پر ہے اور نہ اہلِ کتاب کی آرزوؤں پر۔ جو شخص بھی برا عمل کرے گا اس کو اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ اور وہ اللہ کے سوا کسی کو اپنا حمایتی اور مددگار نہ پائے گا۔ اور جو شخص نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ مومن ہو، تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے، اور ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا (النساء: 123-124)

اِس آیت میں وہ خاص گم راہی بتائی گئی ہے جس میں آسمانی کتاب کی حامل قومیں اپنے دورِزوال میں مبتلا ہوتی ہیں، یہ ہے— فخر کی بنیاد پر جینا، امانی کو عمل کا بدل سمجھ لینا۔

آخرت میں اللہ کے سوا کوئی مدد گار نہ ہوگا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ آخرت میں کسی شخص کو پکڑ سے بچانے والی چیز اللہ کا یہی قانون ہوگا جو یہاں بیان ہوا۔ یعنی وہاں سچا عمل آدمی کے کام آنے والا ہے نہ کہ بے بنیاد آرزوئیں۔

فخر اور امانی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ— اللہ سے ہمارا خصوصی رشتہ ہے۔ ہم محبوبِ خدا کی امت ہیں۔ ہم اولیاء اور بزرگوں کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ ہم عظیم ترین تاریخ کے وارث ہیں۔ ہم مرحوم و مغفور امت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم کلمہ گو اور عاشق رسول ہیں۔ ہم کو اکابر و اعاظم کی نسبت حاصل ہے، وغیرہ۔

اس قسم کے خیالات لوگوں کے اندر فرضی بھرم پیدا کردیتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے مختلف سمجھ لیتے ہیں۔ مگر یہ سب بے بنیاد آرزوئیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں نہ خوش فہمیاں کام آئیں گی اور نہ اسلام پر فخر کرناوہاں کام دے گا۔ اللہ کے یہاں ہر آدمی کی جانچ صرف اس کے ذاتی عمل کی بنیاد پر ہوگی، اس کے سوا ہر چیز وہاں بالکل بے قیمت ٹھہرے گی، خواہ آدمی کی اپنی نظر میں اس کی کتنی ہی زیادہ قیمت کیوں نہ ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ فخر ایمان کی ضد ہے۔ جب آدمی کو عظیم خدا کی دریافت ہوتی ہے تو عین اُس کے نتیجے میں اُس کے اندر تواضع کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے۔ خدا کی عظمت آدمی کے اندر ذاتی عظمت کے تمام احساسات کو مٹا دیتی ہے۔ آدمی خدا کی بڑائی میں جینے لگتا ہے۔ ایمان دراصل خدا کی بڑائی کے مقابلے میں اپنے عجز کی دریافت کا نام ہے۔

جس آدمی کے اندر خدا کی دریافت اِس قسم کی متواضعانہ نفسیات پیدا کردے، وہ کبھی لوگوں کے درمیان فخر کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ یہ ناممکن ہے کہ انسان دو مختلف احساسات کے درمیان جیے۔ ایک طرف اس کے اندر فخر کا احساس ہو، اور دوسری طرف اس کے اندر تواضع کی نفسیات بھری ہوئی ہو۔ جب تواضع آئے گی تو اپنے آپ فخر کا احساس اُس کے اندر سے نکل جائے گا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom