خلافتِ ارضی
خلافتِ ارضی سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن میں دوسری جگہ ’تمکین فی الارض‘ (الکہف: 84) کہاگیا ہے۔ یعنی زمین میں اقتدار دینا۔ یہ اقتدار ایک آزمائشی پرچہ ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح مال ایک آزمائشی پرچہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافتِ ارضی حکمت الٰہی کے تحت ہر قوم کو دی جاتی ہے۔ اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اللہ یہ دیکھے کہ اقتدار پانے والی قوم اقتدار پانے کے بعد کیسا عمل کرتی ہے (یونس: 14)
یہ خلافت ارضی یا اقتدار قرآن کے مطابق، مکمل طورپر خدا کا عطیہ ہے۔ وہی اپنی مصلحت کے تحت یہ عطیہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور جس کو نہیں چاہتا اس کونہیں دیتا۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ— تم کہو،اے اللہ، سلطنت کے مالک تو جس کو چاہے سلطنت دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے۔ اور تو جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلیل کرے۔ تیرے ہاتھ میں ہے سب خیر۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے (آل عمران: 26)
جس طرح مال مقصود حیات نہیں ہے اسی طرح خلافتِ ارضی بھی مقصود دعوت نہیں ہے۔ یہ منصوبۂ الٰہی کے خلاف ہے کہ کوئی گروہ خلافت کو اپنی تحریک کا نشانہ بنائے، خلافت کسی گروہ کو اس طرح نہیں ملتی کہ وہ اس کو اپنا نصب العین قرار دے کر اس کے لیے براہِ راست جدوجہد کرے۔ اس سیاسی عطیہ کا تعلق استحقاق سے ہے۔ اگر کسی گروہ کے اندر یہ شرط پائی جائے تو خوداللہ کی طرف سے ایسے حالات پیدا کیے جائیں گے جو اس کو منصب خلافت تک پہنچا دیں۔ استحقاق کے بغیر محض مطالباتی مہم یا سیاسی جدوجہد کے ذریعہ کسی کو خلافت کا منصب نہیں مل سکتا۔
جہاں تک اہلِ ایمان کاتعلق ہے خلافت ارضی کا معاملہ ان کے لیے ایک امر موعود ہے، وہ ان کے لیے امر مقصود نہیں۔ یعنی اہلِ ایمان کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ خلافت کو اپنا نشانہ بنا کر اس کے حصول کے لیے براہِ راست تحریک چلائیں۔ان کو اپنے اندر ایمانی شعور کو زندہ کرنا ہے اور اپنی ذات سے متعلق ضروری عملی تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ اللہ کاوعدہ ہے کہ اس کے بعد وہ ان کے لیے خلافت ارضی کا فیصلہ فرمائے گا۔قرآن میں ارشاد ہوا ہے:
“اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو زمین میں خلافت (اقتدار) دے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلافت (اقتدار) دیا تھا۔ اور ان کے لیے ان کے دین کو جمادے گا جس کو ان کے لیے پسند کیا ہے۔ اور ان کی خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد انکار کرے تو ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں۔‘‘ (النور: 55)
خلافت یانظام صالح کوئی ایسی چیز نہیں جو کاغذ سے نکل کر زمین پر قائم ہوجائے۔ اس دنیا میں صالح نظام کو قائم کرنے کے لیے ہمیشہ صالح افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر صالح افراد موجود نہ ہوں تو خلافت یا نظام صالح کا نام لینے سے کوئی صالح نظام قائم نہیں ہوسکتا۔ یہ عمل اور نتیجے کے درمیان فرق کا معاملہ ہے۔ اگر آپ پھل چاہتے ہوں تو پہلے آپ کو شجر کاری پر عمل کرنا ہوگا۔ شجر کاری کے میدان میں ضروری عمل کیے بغیر کبھی کوئی شخص پھل کا مالک نہیں بن سکتا۔
یہی معاملہ خلافت یا نظام صالح کے قیام کا بھی ہے۔ کرنے والوں کو سب سے پہلے یہ کرنا ہے کہ وہ افراد کے اندر اعلیٰ ایمانی شعور جگائیں۔ وہ لوگوں کے اندر بلند کرداری پیدا کریں۔ وہ ایسے افراد تیار کریں جو ہر قسم کے نفسانی محرکات سے اوپر اٹھ کر لوگوں سے معاملہ کرنے والے ہوں۔ جن کے اندر یہ استعدادپیدا ہو چکی ہو کہ وہ اقتدار پاکر بھی متواضع بنے رہیں۔ زمین کے خزانے ان کے ہاتھوں میں آئیں مگر وہ حبّمال میں مبتلا نہ ہوں۔ لوگوں کی طرف سے ان کی اناکو چوٹ لگے اس کے باوجود وہ انصاف کے اصول پر قائم رہیں۔ ایسے افراد ہی کوئی صالح نظام قائم کرتے ہیں۔ ایسے افراد کے بغیر خلافت یا صالح نظام کا نعرہ لگانا صرف فساد فی الارض ہے، نہ کہ حقیقی معنی میں کوئی نتیجہ خیز عمل۔