دجّالِ اکبر کا فتنہ

حدیث کی کتابوں میں بہت سی روایتیں مستقبل کے بارے میں آئی ہیں۔ اِن میں سے ایک یہ ہے کہ آخری زمانے میں ایک دجّال پیدا ہوگا۔ اُس وقت اُمتِ مسلمہ میں سے ایک شخص اٹھے گا، جو دجّال کا حَجیج‘بنے گا اور اُس کا خاتمہ کرے گا(إن یخرج وأنا فیکم فأنا حَجیجہ دُونکم، وإن یخرج ولستُ فیکم فامْرُئٌ حجیج نفسہ، صحیح مسلم، کتاب الفتن) یہ واقعہ تاریخ کا عظیم ترین واقعہ ہوگا۔ چناں چہ صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین (کتاب الفتن) یعنی یہ خدا کے نزدیک سب سے بڑی گواہی ہوگی۔

دجّال کے لفظی معنٰی بہت دھوکا دینے والا(great deceiver) ہے۔ دجال اپنا یہ کام تلوار کے ذریعے نہیں کرے گا۔ دھوکا دینا، دلیل کے ذریعے ہوتا ہے، نہ کہ تلوار کے ذریعے۔ چنانچہ دجال علم اور دلائل کے زور پر لوگوں کو بہکائے گا۔ وہ لوگوں کو ذہنی گم راہی میں مبتلا کرے گا۔ دجال کے مقابلے میں جو شخص اس کی کاٹ کے لیے اٹھے گا، اُس کے لیے صحیح مسلم میں ’حجیج‘ کا لفظ آیا ہے۔ لسان العرب میں ’حجیج‘ کا مفہوم اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: مُحاجُّہ ومغالبُہ بإظہار الحُجّۃ علیہ (2/228) یعنی دلائل کے ذریعے غالب آنے والا:

One who can overcome in the argument.

حدیث میں آتا ہے کہ دجّال کی پیشانی پر ک، ف، ر (کفر) لکھا ہوا ہوگا (صحیح مسلم، کتاب الفتن) اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دجال جس دور میں پیدا ہوگا، وہ خدا سے کفر (انکار) کا دور ہوگا، یعنی الحاد کا دور۔ پچھلی تاریخ کا فتنہ خدا کا انکار نہیں تھا، بلکہ خدا کو مان کر اُس کا شریک بنانا تھا۔ اُس زمانے میں خدا کا وجود ایک اصولِ موضوعہ(axiom)کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا۔ لیکن موجودہ زمانے میں یہ مسلّمہ ٹوٹ گیا۔ آج الحاد کا زمانہ ہے، یعنی انکارِ خدا کا زمانہ۔

قدیم زمانے میں داعی کو یہ ثابت کرنا پڑتا تھا کہ خدا کا کوئی شریک نہیں۔ موجودہ زمانے میں داعی کو خدا کے وجود کو ثابت کرنا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو دجّال کے فتنے سے لڑنا کہاگیا ہے۔ خدا کے وجود کو علمی طورپر ثابت کرنا، یہی دجّال کو قتل کرنا ہے۔ حدیث میں جس چیز کو ’’عظیم ترین شہادت‘‘ کہاگیا ہے، اُس سے مراد غالباً یہی ہے۔

حدیثوں کے مطالعے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دجّال یا دجّالیت در اصل سائنسی دور کا فتنہ ہے۔ سائنسی دور میں پہلی بار یہ ہوگا کہ کچھ لوگ دلائل کے نام پر حق کا ابطال کریں گے۔ وہ یہ تأثر دیں گے کہ حق، علمی ترقی کے مقابلے میں ٹھیر نہیں سکتا۔ پھر خدا کی توفیق سے ایک شخص اٹھے گا جو خود سائنسی دلائل کے ذریعے اِس دجّالی فتنے کا خاتمہ کردے گا۔ وہ دجّالی دلائل کو زیادہ بر تر دلائل کے ساتھ بے بنیاد ثابت کردے گا۔ یہ واقعہ، اپنی نوعیت کے اعتبار سے، تاریخ بشری کا پہلا واقعہ ہوگا۔ وہ دعوتِ حق کی عظیم ترین مثال کے ہم معنی ہوگا۔ اِسی لیے اُس کی بابت صحیح مسلم میں یہ الفاظ آئے ہیں: ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین۔ یہ عظیم دعوتی واقعہ قیامت سے پہلے پیش آئے گا۔

دجّالی فتنہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے کوئی نیا فتنہ نہیں،وہ شیطانی فتنے ہی کا نقطۂ انتہا(culmination)ہے۔شیطان ہمیشہ سے یہ کرتا رہا ہے کہ وہ ’تزئین‘ کے ذریعے لوگوں کو سچائی کے راستے سے ہٹاتا ہے۔ شیطان کا یہ کام ہمیشہ سے جاری ہے۔ اِسی شیطانی فتنے کے خلاف ذہن کو بیدار رکھنے کے لیے حج کے موقع پر رمی کی جاتی ہے۔ رمی دراصل شیطان کے خلاف علامتی سنگ باری (symbolic stoning) ہے۔ سائنسی دور میں یہ شیطانی تزئین، علمی تزئین کے روپ میں ظاہر ہوگی۔ اسی لیے اس کو دجّالیت کہاگیا ہے۔

قرآن کے مطابق، شیطان کا کام تزئین (الحجر: 39) کرنا ہے۔ تزئین کے لیے ہمیشہ اُس کے موافق سامان درکار ہوتا ہے۔ پچھلے زمانوں میں یہ موافق سامان زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ موجودہ زمانے میں یہ موافق سامان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، علمی اعتبار سے بھی اور عملی اعتبار سے بھی۔ دجّال دراصل وہ شیطانِ اکبر ہے جو جدید ذرائع سے، زیادہ پُرزور انداز میں باطل کی تزئین کرے گا۔ پھر امتِ محمدی کا ایک شخص اٹھے گا جو خدا کی خصوصی مدد سے نظریاتی سطح پراس کی دجّالیت کا خاتمہ کردے گا۔

دجّالیت در اصل علمی سطح پر تزئینِ اکبر کا فتنہ ہے۔ حدیث کے مطابق، اُس زمانے میں ایک ’’رجلِ مومن‘‘ اٹھے گا جو دجّال کو قتل کرے گا، مگر یہ قتل جسمانی معنوں میں نہ ہوگا بلکہ فکری معنوں میں ہوگا، یعنی دجّالی فتنے کو ایکسپوز (expose) کرنا۔

دجالیت ایک علمی فتنہ ہوگا اور رجلِ مومن بھی اس کا خاتمہ علمی دلائل کے زور پر کرے گا۔ حدیث میں ’عظیم شہادت‘ کا لفظ اِسی معنیٰ میں آیا ہے۔اِس میں ’شہادت‘ سے مراد گواہی ہے نہ کہ جان کی قربانی۔دینِ حق کی یہی وہ عظیم ترین گواہی ہے جس کو حدیث میں ’’قتلِ دجّال‘‘ کہاگیا ہے۔

دجّال اکبر کا مقابلہ کرنے والے اِسی رجلِ مومن کو حدیث میں مہدی کہاگیا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث میں مہدی اور مسیح دونوں کو ایک شخصیت بتایا گیا ہے(ولا المہدیُّ إلاّ عیسیٰ بنُ مریم، ابن ماجہ، کتاب الفتن) اِس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ دجّال، شیطانی کلچر کا نقطۂ انتہا ہے اور مہدی، ربّانی کلچر کا نقطۂ انتہا۔ دجّال، مٹیریل آئڈیالوجی کا نمائندہ ہے اور مہدی، اسپریچول آئڈیالوجی کا نمائندہ— مٹیریل آئڈیالوجی کا نشانہ دنیا میں جنت کی تعمیر ہے، اور اسپریچول آئڈیالوجی کا نشانہ آخرت میں جنت کی تعمیر۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom