سائنٹفک مذہب کی ضرورت

فرانسس ہربرٹ بریڈلے (وفات: 1924) مشہور برٹش فلسفی ہے۔ اس نے اپنی کتاب (Appearance and Reality) میں لکھا ہے کہ آج انسان کو ایک سائنٹفک مذہب (Scientific religion) کی ضرورت ہے، قدیم روایتی طرز کا مذہب آج کے انسان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ بریڈلے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ آج کے انسان کو ایسا مذہب چاہیے جس کا پیغمبر نیوٹن ہو اور جس کی مقدس کتاب پرنسپیا (Principia) ہو، یا یہ کہ اُس کا پیغمبر آئن سٹائن ہو اور اس کا الہٰیاتی نظریہ (General theory of relativity) ہو، بلکہ بریڈلے کا مطلب یہ تھا کہ آج کے زمانے میں وہی مذہب انسان کے لیے قابلِ قبول ہوسکتا ہے جو سائنٹفک جانچ میں پورا اترے۔

اصل یہ ہے کہ جدید سائنس کے ظہور کے بعد تمام افکار و عقائد کی دوبارہ سائنسی جانچ کی گئی۔ اِس جانچ میں بہت سے نظریات غیر واقعی ثابت ہو کر متروک ہوگیے۔ مثلاً اِسی جانچ کے نتیجے میں سولرسسٹم کے بارے میں زمین مرکزی (geocentric)نظریہ ختم ہوگیا اور آفتاب مرکزی (heleocentric)نظریے کو مان لیا گیا۔ اِسی طرح قدیم الکیمی ختم ہوگئی اور جدید کمیسٹری نے اُس کی جگہ لے لی۔ اِسی طرح قدیم ایسٹرالوجی کا خاتمہ ہوگیا اور جدید ایسٹرا نومی کو قبولیت حاصل ہوگئی، وغیرہ۔

بریڈلے کا مقصد یہ تھا کہ مذہب کے اوپر بھی یہی عمل کیا جانا ضروری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک مثبت تجویز ہے۔ میں نے ذاتی طورپر اِس تجویز پر بھر پور عمل کیا ہے۔ میں نے سائنٹفک میتھڈ کو مذاہب کے اوپر اپلائی کیا ہے۔ مجھے اپنے مطالعے سے یہ معلوم ہوا کہ پچھلے تمام مذاہب تبدیلیوں کی بنا پر اپنی اصل حیثیت کو باقی نہ رکھ سکے۔ اس بنا پر وہ سائنسی تحقیق کے معیار پرپورے نہیں اترتے۔

مگر اسلام کا معاملہ استثنائی طورپر مختلف ہے۔ میں نے ذاتی طور پر اسلام کا مطالعہ بالکل غیرجانب دارانہ انداز میں اور خالص سائنسی طریقِ کار کے مطابق کیا ہے۔ میں ذاتی تحقیق کے مطابق، پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسلام ہی وہ سائنٹفک مذہب ہے جس کا خواب برٹش فلسفی بریڈلے نے دیکھا تھا۔ اپنی تحقیق کے نتائج کو میں اپنی کتابوں اور اپنے مضامین نیز اپنی تقریروں میں بیان کرتا رہا ہوں۔ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ لاکھوں لوگوں کو میری اِن تحریروں اور تقریروں سے اسلام کے بارے میں نیا یقین حاصل ہوا ہے، فللّٰہ الحمد۔

اپنے تجربے کے مطابق، میرا ذاتی احساس یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ضرورت ہے کہ غیرمسلموں کے لیے اسلام کو اُن کی ڈسکوری (discovery) بنایا جائے۔ اور مسلمانوں کے لیے اسلام کو اُن کی ری ڈسکوری (re-discovery)بنایا جائے۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔ الرسالہ مشن لمبی مدت سے یہی کا م کررہا ہے۔ ہمارا نشانہ یہ ہے کہ دوسری قوموں کے لیے اسلام کو ان کی ڈسکوری بنائیں۔ اور مسلم قوم کے لیے اسلام کو اس کی ری ڈسکوری بنائیں۔

یہی موجودہ زمانے میں دعوت الی اللہ کا نشانہ ہے۔ دعوت الی اللہ نہ تو کوئی مناظرے جیسا کام ہے، اور نہ وہ کسی قسم کی سیاسی تحریک ہے۔ دعوت الی اللہ یہ نہیں ہے کہ مسلمان اپنے فخر کو دوسروں کے اوپر نمایا ں کریں۔ دعوت الی اللہ کا کمیونٹی ورک سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ دعوت الی اللہ یہ نہیں ہے کہ دوسروں کا کم تر ہونا اور اپنا برتر ہونا ثابت کیا جائے۔ داعی کی زبان یہ نہیں ہوسکتی کہ:

Buldoze them all, knock them out.

داعی کی زبان یہ بھی نہیں ہوسکتی کہ— ہاں ہم ٹررسٹ ہیں، مگر ہم سوسائٹی کے اینٹی سوشل عناصر (anti social elements)کے لیے ٹررسٹ ہیں، جیسا کہ پولیس ہوتی ہے۔ اِس قسم کے تمام اسلوب غیر داعیانہ اسلوب ہیں۔ داعیانہ اسلوب صرف وہ ہے جس میں انسان کی سچی خیر خواہی جھلکتی ہو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom