ایک خط
برادرِ محترم عبد السلام اکبانی صاحب!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
26 مئی 2007 کی صبح کو آپ نے ٹیلی فون پر بتایا کہ آج جسٹس ایم ایم قاضی کا انتقال ہوگیا۔ إنا للہ وإنا الیہ راجعون۔ اُن کے صاحب زادے کے ذریعے معلوم ہوا کہ ان کی پیدائش فروری1930 میں ہوئی تھی۔ جسٹس صاحب سے میری پہلی ملاقات غالباً بمبئی میں ہوئی، جب کہ وہ وہاں جسٹس کے عہدے پر تھے۔ اس کے بعد بمبئی میں اور ان کے وطن ناگ پور میں بار بار ان سے ملاقات ہوتی رہی۔ وہ بڑی عجیب صلاحیتوں کے آدمی تھے۔
ایک بار انھوں نے بمبئی کی ملاقات میں مجھ سے کہا کہ ریلیونس (relevance) اور ارریلیوینس(irrelevance) کا جتنا اکیوٹ سینس (acute sense) میں نے آپ کے اندر پایا، کسی اور کے اندر نہیں پایا۔ میں نے کہا کہ یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جس کے اندر خود یہ صفت بدرجۂ اتم موجود ہو۔ اور یہ ایک واقعہ ہے کہ جسٹس قاضی کے اندر یہ صفت بہت زیادہ پائی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن سے میرا انٹلکچول ایکسچینج دیر دیر تک ہوتا تھا اور دونوں میں سے کوئی بھی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا تھا۔
جسٹس قاضی کو شعر و شاعری کا ذوق تھا۔ وہ اقبال کے بہت قدر داں تھے۔ چناں چہ کئی بار ایسا ہوا کہ گفتگو کے دوران اقبال کا ذکر آگیا۔ میں نے اقبال پر تنقید کی، مگر جسٹس قاضی نے کبھی بھی میری تنقید کا بُرا نہیں مانا، بلکہ اس کے علمی وزن کا اعتراف کیا۔مثلاً ایک بار میں نے کہا کہ لوگ اقبال کو تھنکرپوئٹ کہتے ہیں۔ میرے نزدیک وہ پوئٹ تو ضرورتھے، لیکن وہ تھنکرنہ تھے۔ میں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اقبال کا ایک مشہور شعر ہے:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اقبال کا یہ شعر بتاتا ہے کہ اُن کے اندرتجزیہ(analysis) کی صلاحیت نہ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے قرآن کے نام پر اتنا زیادہ کام کیا ہے جو پچھلی صدیوں میں کبھی نہیں ہوا۔ موجودہ زمانے میں جتنی زیادہ نمازیں پڑھی جارہی ہیں اور جتنے زیادہ لوگ حج کررہے ہیں، اتنا زیادہ اِس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ اِسی طرح موجودہ زمانے میں اسلام کے نام پر جتنی زیادہ سرگرمیاں ساری دنیا میں جاری ہیں، اتنی زیادہ اِس سے پہلے کبھی نہ تھیں۔موجودہ زمانے میں جہاد کے نام پر جان اور مال کی جتنی زیادہ قربانیاں دی گئی ہیں، وہ مقدار کے اعتبار سے پوری مسلم تاریخ کی مجموعی قربانی سے بھی زیادہ ہے۔ایسی حالت میں اصل مسئلہ عمل کے فُقدان کا نہیں ہے، بلکہ اُس کے نتیجے کے فقدان کا مسئلہ ہے۔ اقبال نے اِس فرق کو نہیں سمجھا اور نتیجۂ عمل کے فقدان کو دیکھ کر یہ سمجھ لیا کہ خود جو عمل درکار ہے، وہی مفقود ہے۔ اقبال کو یہ بتانا چاہیے تھا کہ مسلمان بظاہر ’’تارکِ قرآں ‘‘ نہیں ہیں، اِس کے باوجود کیوں ایسا ہے کہ وہ قرآن کی برکتوں سے محروم ہیں۔ جسٹس قاضی نے میری اِس بات کو دل چسپی کے ساتھ سنا اور اُس پر کسی منفی ردّ عمل کا اظہار نہیں کیا۔
اسی طرح ایک بار میں نے گفتگو کے دوران اُن سے کہا کہ اقبال اور دوسرے مسلم رہنما، مغربی تہذیب کو اسلام دشمن تہذیب سمجھتے ہیں اور اُس کے خلاف سخت جذبات کا اظہار کرتے ہیں، مگر یہ ناواقفیت کی بات ہے۔ فطرت کا قانون یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہر چیز کے ساتھ کچھ نہ کچھ مثبت پہلو شامل رہتے ہیں، مگر اقبال اور دوسرے مسلم رہنما مغربی تہذیب کے اِس مثبت پہلو کو دیکھ نہ سکے۔ اُس وقت مجلس میں ایک اور صاحب موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بات صحیح نہیں۔ اقبال نے مغربی تہذیب کے مثبت عناصر کا بھی ادراک کیا ہے۔ اپنے دعوے کی تائید میں انھوں نے اقبال کا یہ شعر پڑھا:
قوتِ افرنگ از علم و فن است از ہمیں آتش، چراغش روشن است
میں نے کہا کہ یہ ایک غیر متعلق (irrelevant) حوالہ ہے۔ اِس شعر میں اقبال نے مغرب کی داخلی قوت کا راز بتایا ہے۔ اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ کسی کو بھی داخلی قوت کے بغیر عروج نہیں ہوتا۔ میں نے جوبات کہی، اُس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مغرب نے داخلی قوت کے بغیر ہی عروج حاصل کرلیا ہے۔ ایسی بات کوئی نادان آدمی ہی کہہ سکتا ہے۔ میرا مدّعا یہ ہے کہ اقبال اور دوسرے لوگوں نے مغرب کے مخالفِ اسلام ہونے کا تو اعلان کیا، مگر وہ یہ نہ بتا سکے کہ مغربی تہذیب میں موافق اسلام عناصر بھی موجود ہیں۔ اور وہ فلاں فلاں ہیں۔ جسٹس قاضی صاحب کے اہلِ خانہ کو میری طرف سے تعزیت فرمادیں۔
نئی دہلی، 26 مئی 2007 دعا گو وحید الدین