مسلمان کیا کریں
1940 کے قریب مسلم اخبارات اور رسائل میں ایک عنوان پر بہت زیادہ لکھا جارہا تھا— ’’مسلمان کیا کریں ‘‘۔ عجیب بات ہے کہ آج بھی یہ موضوع بدستور زندہ ہے۔ ایک مسلم پروفیسر سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ موجودہ مسلمانوں کے لیے ’لائن آف ایکشن‘ کیا ہو۔ ایک عرب شیخ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے یہ سوال کیا کہ ہم اپنا عمل کہاں سے شروع کریں (مِن أین نبدأ) اِس مسئلے پر میں نے بہت غور کیا ہے۔ میری سمجھ میں تین باتیں آتی ہیں:
1 - اِس معاملے کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ بعد کے دور میں مسلمانوں نے پیغمبرِاُسوہ کو پیغمبرِفضیلت بنا لیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہزاروں کتابیں لکھی گئیں، مگر وہ کم و بیش نعت خوانی کے اسلوب میں لکھی گئیں، کوئی منثور نعت خوانی تھی اور کوئی منظوم نعت خوانی۔ چناں چہ اِن کتابوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ پیغمبر اسلام سے مسلمانوں کو فخر کی غذا ملی مگر ان کو پیغمبر اسلام سے رہنمائی کی غذانہ مل سکی۔
2 - قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے پچیس پیغمبروں کا ذِکر ہے۔ قرآن کی صراحت کے مطابق، پچھلے پیغمبروں کا یہ ذکر اِس لیے تھا کہ اُن سے اپنے حالات میں رہنمائی حاصل کی جائے۔ (فبہداہم اقتدہ) لیکن بعد کے زمانے میں یہ ہوا کہ مسلمانوں نے اپنے پیغمبر کو ’پیغمبر کامل‘ سمجھ لیا۔ اِ س بنا پر مسلمانوں میں یہ ذہن ختم ہوگیا کہ وہ پچھلے پیغمبروں سے رہنمائی حاصل کریں، جواُن کے نزدیک گویا کہ ’غیرکامل پیغمبر‘ تھے۔
3 - حدیث میں مومن کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہوتا ہے (أن یکون بصیراً بزمانہ) لیکن موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلم رہنماؤں نے یہ کیا کہ انھوں نے موجودہ زمانے کو اپنا دشمن سمجھ لیا۔ اِس بنا پر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے اندر یہ ذہن ہی پیدا نہیں ہوا کہ وہ زمانے کو مثبت انداز میں سمجھیں اور اس کے مطابق، اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں— میرے نزدیک، یہ تین بنیادی کوتاہی ہے جس نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو حقیقی رہنمائی سے محروم کردیا ہے۔