تطفیف پر وَیل

تجارت کو منصفانہ بنیاد پر قائم کرنا، شریعتِ الٰہی کا ایک اہم اصول ہے۔ اس سلسلے میں قرآن میں ایک بنیادی حکم یہ دیاگیا ہے کہ تجارتی سودے میں کوئی تاجر نہ کم تولے اور نہ کم ناپے بلکہ ناپ اور تول میں پوری طرح عدل سے کام لے۔ اس سلسلے میں قرآن کے چند حوالے یہ ہیں:

1 - لاتنقصوا المکیال والمیزان (ہود:84)

2 - ولا تبخسوا الناس أشیاء ہم (الشعراء:183)

3 - ولا تخسروا المیزان (الرحمٰن:9)

اس کے علاوہ قرآن کی سورہ نمبر 83 میں ایک اور حکم آیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: ’’خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔ جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں۔ اور جب اُن کو ناپ کر یا تول کردیں تو گھٹا کردیں۔ کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ اُٹھائے جانے والے ہیں، ایک بڑے دن کے لیے، جس دن تمام لوگ خداوند عالم کے سامنے کھڑے ہوں گے‘‘۔ (التطفیف: 1-6)

سورہ التطفیف کے حکم اور دوسری سورتوں کے حکم میں بظاہر لفظی مشابہت ہے۔ یعنی دونوں میں ناپ اور تول کی زبان استعمال کی گئی ہے۔ مگر دونوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ کہ دوسری سورتوں میں دینے کے وقت یک طرفہ طورپر کم تولنے یا کم ناپنے کا ذکر ہے۔ مگر سورہ التطفیف میں اس کے برعکس یہ کہاگیا ہے کہ— وہ لوگ جو دوسروں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں۔ اور جب اُن کو ناپ کر یا تول کردیں تو گھٹا کر دیں۔

اس فرق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسری سورتوں میں تاجرانہ بد معاملگی سے منع کیا گیا ہے۔ مگر سورہ التطفیف میں جو بات ہے اُس کا تعلق تجارتی معاملے سے نہیں ہے۔ یہ دراصل ایک انسانی کردار ہے جس کو ناپ اور تول کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کامزاج یہ ہو کہ اپنے معاملے میں اُن کا معیار کچھ ہو اور دوسروں کے معاملے میں اُن کا معیار کچھ اور۔

یہ وہ لوگ ہیں کہ جب اُن کی اپنی ذات کا ذکر ہو تو وہ صرف اپنی خوبیاں بیان کریں، اور جب دوسرے کا معاملہ ہو تو وہ اُس کی صرف برائیاں بیان کریں۔ اپنے معاملے کو بیان کرنے کے لیے اُن کو ہمیشہ خوب صورت الفاظ مل جائیں، اور دوسرے کے معاملے کو بیان کرنے کے لیے اُن کے پاس صرف برے الفاظ ہوں۔ وہ اپنے آپ کو تو ہمیشہ خوش نام رکھنا چاہتے ہوں مگر دوسروں کے معاملے میں انھیں صرف اُن کی بدنامی سے دلچسپی ہو۔ ایک طرف وہ اپنے کارناموں کا بھرپور اعتراف چاہتے ہوں اور دوسری طرف اُن کے سوا جو لوگ ہیں، اُن کا ذکر اس طرح کریں جیسے کہ انھوں نے کوئی اچھا کام ہی انجام نہیں دیا۔

ان آیات میں ناپ اور تول کی زبان بطور تمثیل استعمال کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس باٹ سے دوسروں سے لے رہاہے، اسی باٹ سے اُسے دوسروں کو دینا بھی چاہیے۔ مثلاً دوسروں سے وہ اپنا اعتراف چاہتا ہے تو اُس کو بھی دوسروں کا اعتراف کرناچاہیے۔ دوسروں سے وہ چاہتا ہے کہ وہ اُس کو بدنام نہ کریں تو اُس کو بھی چاہیے کہ وہ دوسروں کو بدنام کرنے سے پرہیز کرے۔ وہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ حق کے معاملے میں اُس کا ساتھ دیں تو اُس کو بھی اسی طرح دوسروں کا ساتھ دینا چاہیے۔وہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ اُس کے بارے میں وہی بات کہیں جو واقعہ کے مطابق ہو تو اُس کو بھی دوسروں کے بارے میں ہمیشہ مطابقِ واقعہ بات کہنا چاہیے۔

تاریخ کے اکثر نزاعات بدگمانی کی بنیاد پر ہوئے ہیں، اور بدگمانی کا سبب ہمیشہ یہی تطفیف ہوتا ہے۔ دو افراد یا دو گروہوں کے درمیان جب بھی نزاع ہو یا ہوئی تو اُس کا سبب ہمیشہ یہی تطفیف تھا۔ لوگوں نے جس کو اپنا حریف سمجھ لیا، اُس کی اچھائیوں کو بالکل نظر انداز کردیا۔ البتہ اُس کی حقیقی یا غیر حقیقی برائیوں کو ڈھونڈھ کر نکالا اور اُس کو عوام کے درمیان خوب پھیلادیا— گھر کی انفرادی لڑائی سے لے کر باہر کی قومی لڑائیوں تک ہر جگہ یہی تطفیف کا معاملہ کام کرتا ہوا نظر آئے گا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom