متواضع انسان

احساسِ خویش (یا احساس برتری) ایک فطری جذبہ ہے جو ہر آدمی کے اندر موجودرہتا ہے۔ اس جذبہ سے آدمی کے اندر حوصلہ اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ اگراحساس خویش آدمی کے اندر نہ ہو تو اس کے اندر خود اعتمادی بھی نہ رہے گی اور جب خود اعتمادی نہیں ہوگی تووہ اس دنیا میں کوئی کام بھی نہیں کرسکتا۔ مگر یہ ضروری ہے کہ آدمی کا احساس خویش یا احساس برتری بے قید نہ ہونے پائے، وہ تواضع کے جذبہ کے تحت دبا رہے۔ اگر یہ دباؤ نہ ہو تو آدمی اجتماعی زندگی میں اپنی افادیت کھودے گا۔ وہ اہنکار میں مبتلا ہوجائے گا۔ اور بلاشبہہ اہنکار سے زیادہ تباہ کن کوئی چیز اس دنیا میں نہیں۔

اس دنیا میں صرف دو چیزیں ہیں جوآدمی کو متواضع بناتی ہیں۔ ایک، سائنٹفک ذہن، دوسرے متقیانہ مزاج۔ سائنٹفک ذہن علم کی معرفت سے بنتا ہے اور متقیانہ ذہن خدا کی معرفت سے۔

آدمی کے اندر جب اہنکار کا جذبہ پیداہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے معاملے کو انسان کی نسبت سے دیکھتا ہے۔ چوں کہ انسانوں میں بہت سے لوگ اس کو اپنے آپ سے کم تر دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے اس کے اندر اپنی بڑائی کا جذبہ ابھر آتا ہے۔مگر جس آدمی کے اندر حقیقی معنوں میں سائنٹفک ذہن ہو، وہ اپنے معاملے کو علم کی نسبت سے دیکھتا ہے نہ کہ عالمِ کی نسبت سے۔ عالم محدود ہوسکتا ہے، مگر علم لامحدود ہے۔ عالم کی نسبت سے ایک آدمی اپنے کو زیادہ سمجھ سکتا ہے مگر وسیع تر علم کی نسبت سے ہر آدمی کم ہے۔ یہ احساس ایک سائنٹفک انسان کے اندر فطری طور پر تواضع کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔

اسی طرح جس آدمی کے اندر تقویٰ کی صفت ہو۔ وہ اپنے معاملے کو خدائے بزرگ و برتر کی نسبت سے دیکھنے لگتا ہے۔ یہاں بھی وہی بات مزید بے پناہ اضافہ کے ساتھ موجود ہے۔ مخلوق کی نسبت سے دیکھنے میں ایک شخص کو اپنی ذات بڑی دکھائی دے سکتی ہے، مگر خدا کی نسبت سے دیکھا جائے تو ہر آدمی چھوٹا ہوجاتا ہے، خدا کی نسبت سے کوئی آدمی بھی بڑا آدمی نہیں۔ اس طرح متقی آدمی کے لیے اس کا عقیدہ اس کو ایک متوازن انسان بنا دیتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom