غلط جنرلائزیشن
10 مئی 2007 کی صبح کو میں دہلی سے بمبئی گیا اور 12مئی 2007 کی شام کو واپس آیا۔ ہوائی جہاز میں تمام ضروری سہولتیں موجود تھیں۔ سروس بھی بہتر تھی، لیکن مجھے ذاتی طورپر ایک ’’شکایت‘‘ کا تجربہ ہوا۔ جہاز کی طرف سے جوکھانا دیاگیا اُس میں خِلال(tooth pick) موجود نہ تھا۔ میں نے عملے کے دو آدمیوں سے کہا کہ مجھے خلال چاہیے، لیکن وہ شاید بھول گیے اور اُس کو نہ دے سکے۔
اِس واقعہ کو لے کر ایک لمحے کے لیے میرے دل میں خیال آیا کہ یہ ہوائی کمپنی بالکل ناقص ہے۔ اُس میں مسافر کے لیے خلال بھی موجود نہیں۔ لیکن فوراً ہی میں نے محسوس کیا کہ ایسا سوچنا انصاف کے خلاف ہوگا۔ جہاز کے اندر ننّانوے چیزیں بالکل ٹھیک حالت میں تھیں۔ صرف ایک چیز میرے ذوق کے مطابق نہ تھی۔ ایسی حالت میں یہ بالکل غلط ہوگا کہ کوئی شخص ایک جُزئی کمی کو لے کر جہاز کی پوری سروس کو بُرا بتائے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو غلط جنرلائزیشن کہا جاتا ہے۔ قرآن میں اِس کے لیے ’تطفیف‘ کا لفظ آیا ہے۔
عام طور پر لوگوں کا مزاج یہ ہے کہ وہ دوسروں پر تبصرہ کرنے کے معاملے میں سخت ناانصافی کرتے ہیں۔ وہ ایک جزئی شکایت کو لے کر اُسی کو کُلّی بنا دیتے ہیں۔ اُن کا حال یہ ہے کہ وہ جس سے خوش ہوں گے، اُس کی ایک اچھی بات کو لے لیں گے اور اس کی ننّانوے بُری بات کو چھوڑ دیں گے۔ اور جس سے ناخوش ہوں گے، اس کی ایک بُری بات کو لے لیں گے اور اس کی ننّانوے اچھی بات کو نظرانداز کردیں گے۔ یہ مزاج غیر انسانی بھی ہے اور غیر اسلامی بھی۔ ایسے لوگ اخلاق کی عدالت میں بھی مجرم ہیں اور خدا کی عدالت میں بھی۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی جب کسی بات کو بیان کرے تو وہ اس کو عین اُسی طرح بیان کرے جیساکہ وہ ہے۔ غلط طورپر کسی بات کو بڑھانا یا غلط طورپر کسی بات کو گھٹانا، دونوں عادتیں سخت مذموم ہیں۔ اِس قسم کی عادت آدمی کے اندر صالح شخصیت کی تعمیر میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔