تفسیرِ قرآن

کچھ لوگ ضروری علمی حق ادا کیے بغیر قرآن کی تفسیر کرتے ہیں۔ مگر حدیث میں اس کو سختی سے منع کیا گیا ہے(الترمذی، باب أن یفسّر القرآن بغیر علم) مثلاً قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اُس میں دو قسم کی آیتیں ہیں۔ چناں چہ ارشاد ہوا ہے: منہ آیات محکمات ہنّ أم الکتاب وأخر متشابھات (آل عمران: 7) یعنی اُس میں بعض آیتیں محکم ہیں، وہ کتاب کی اصل ہیں۔ اور دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔

اس آیت میں ’متشابہات‘  کا لفظ لے کر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں کچھ آیتیں مشتبہ آیتیں ہیں، اُن کا مفہوم واضح نہیں۔ مگر آیت کی یہ تفسیر درست نہیں۔ متشابہات کا مطلب متماثلات ہے، یعنی بزبان تمثیل۔ یہ دونوں الفاظ اُسلوب کو بتانے کے لیے ہیں، نہ کہ اصل معنیٰ کو بتانے کے لیے۔ اصل یہ ہے کہ قرآن میں دوقسم کے مضامین ہیں۔ ایک، موجودہ معلوم دنیا کے بارے میں۔ دوسرے، غیب کی دنیا کے بارے میں۔ قرآن میں موجودہ معلوم دنیا کے بارے میں جو بیانات ہیں وہ براہِ راست زبان میں ہیں اور غیب کی دنیا کے بارے میں جو بیانات ہیں وہ تمثیل کی زبان میں ہیں۔

مثلاً إن الصلاۃ کانت علی المؤمنین کتاباً موقوتًا (النساء: 103) ایک ایسی آیت ہے جو محکم زبان میں ہے۔ اس آیت میں ’موقوت‘ کے مفہوم کو ہم پوری طرح جان سکتے ہیں۔ اس کے برعکس یداہ مبسوطتان (المائدہ: 64) ایک ایسی آیت ہے جو متشابہ زبان میں ہے۔ اللہ کا ہاتھ کیسا ہے، اُس کو جاننا ہمارے لیے ممکن نہیں، اس لیے اُس کو تمثیل کی زبان میں بیان کیا گیا۔ اس دوسری آیت کا مفہوم ہم صرف اجمالی زبان میں سمجھ سکتے ہیں۔ کلی اورحتمی طور پر اُس کا مفہوم اس دنیا میں سمجھا نہیں جاسکتا۔

متشابہ آیتوں میں غیب کی باتوں کو تمثیل کی زبان (symbolic language) میں بیان کیا گیا ہے۔ چوں کہ ان غیبی باتوں کو انسان موجودہ دنیا میں کلی طورپر سمجھ نہیں سکتا، اس لیے اُن کے معاملے میں ایسا کیا گیا۔ اس قسم کی آیتوں کے بارے میں خوض اور تعمق درست نہیں۔ ایک عالم نے بجا طور پر کہا ہے کہ: أبہموا ما أبہمہ اللہ (تم اُس چیز کو مبہم رکھو جس کو اللہ نے مبہم رکھا ہے)۔

جہاں تک محکم آیتوں کا تعلق ہے، اُن میں ہم یہ کرسکتے ہیں کہ اُن کی تفصیلات جاننے کے لیے مکمل تحقیق اور غور و فکر کریں کیوں کہ ایسی آیتیں انسان کے دائرۂ علم سے تعلق رکھتی ہیں۔ مگر جہاں تک متشابہات کا تعلق ہے، اُن کے بارے میں طالبِ قرآن کو اجمالی مفہوم پر اکتفا کرنا چاہیے۔

2 - اسی طرح قرآن میں ’أولوا الألباب  کا لفظ کئی مقامات پر آیا ہے۔ مثلاً فرمایا: إنما یتذکر أولواالألباب(الرعد: 19)۔ ان آیتوں کے بارے میں اگر کوئی شخص کہے کہ ’أولواالألباب  کا مطلب ہے اوپن مائنڈ(open mind) تو یہ درست نہ ہوگا۔ قرآن کی تفسیر کے بارے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے زبان کے اعتبار سے آیت کا لفظی مفہوم بتایا جائے۔ اُس کے بعد ضروری تشریح اور تجزیہ کرکے بیان کیا جائے کہ اُس کے نزدیک آیت کا مفہوم کیا ہے۔ مثلاً ’أولواالألباب‘ کی آیت میں پہلے اُس کا صحیح ترجمہ بتانا ہوگا۔ اُس کے بعد اُس کے بارے میں اپنی تشریح دلائل کے ذریعہ بتائی جاسکتی ہے۔

عربی زبان میں ’لُبّ‘ کے معنی عقل (intellect) کے ہیں۔ تاہم لُبّ میں لغوی طورپر مزید وسعت ہے۔ لُب اصل میں ہر چیز کے خالص کو کہتے ہیں۔ عقل کے لیے جب یہ لفظ استعمال کیا جائے تو اُس سے مراد خالص عقل ہوگی، وہ عقل جو وہم اور تعصب کی آمیزش سے پاک ہو۔ اس لیے لُبّ پر عقل کا اطلاق ہوگا مگر عقل پر لُبّ کا اطلاق ضروری نہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی بے آمیز عقل کے ساتھ سوچے تو وہ قرآن کے بیان کی تصدیق پر مجبور ہوگا۔

أولوا الألباب‘ کی تشریح کرتے ہوئے مفسر ابن کثیر نے لکھا ہے کہ: العقول التّامۃ الزّکیۃ التی تدرک الأشیاء بحقائقہا (تفسیر ابن کثیر،جلد 1، صفحہ 438) یعنی کامل اور پاکیزہ عقل جو چیزوں کا اُن کی حقیقت کے لحاظ سے ادراک کر لے۔

عقل ہر انسان کو ملتی ہے، لیکن لوگ اپنی عقل پر طرح طرح کے پردے ڈال لیتے ہیں۔ اس لیے وہ چیزوں کو ویسا نہیں دیکھ پاتے جیسی کہ وہ ہیں۔ جو آدمی اپنی عقل کو اس کمزوری سے بچائے اُس کے لیے حق کو پہچاننا کچھ بھی مشکل نہیں۔

یہاں میں ایک اور بات کا اضافہ کروں گا۔ وہ یہ کہ علم کے حصول کے لیے تواضع (modesty) لازمی طورپر ضروری ہے۔ جس آدمی کے اندر تواضع کی صفت نہ ہو وہ کبھی علم اور معرفت کا تجربہ نہیں کرسکتا۔

ہر آدمی کے اندر پیدائشی طورپر انانیت اورکبر کا مادہ ہے، کوئی بھی آدمی اس سے خالی نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ کسی آدمی کا کبر اُس کے لہجے اور انداز میں کھلے طورپر نمایاں ہوجاتا ہے اور کوئی شخص اپنے کبر کواس طرح چھپائے رہتا ہے کہ عام حالات میں کوئی آدمی اُس کو پکڑ نہیں سکتا۔

کبر حصولِ علم میں کیوں رکاوٹ بنتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے آپ بہت کم باتوں کو جان سکتاہے۔ زیادہ باتیں اُس کو دوسروں سے سیکھنی پڑتی ہیں۔ اب ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی آدمی کے سامنے دوسرے کی طرف سے کوئی علم کی بات آتی ہے تو وہ أخذتہ العزّۃ بالإثم (البقرہ: 206) کا مصداق بن جاتا ہے۔ یعنی وہ اُس کو ساکھ (prestige) کا سوال بنا لیتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے دوسرے کی بات مان لی تو میں اُس کے مقابلے میں چھوٹا ہوجاؤں گا۔ اس نفسیات کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ اُس کے سامنے علم آتا ہے مگر وہ اُس کو قبول کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom