اختلاف كا مسئله

مسلمانوں كے اندر بڑے پيمانے پر مذهبي اختلافات پائے جاتے هيں۔ يه اختلاف بڑھ كر كبھي تشدد كي صورت اختيار كرليتا هے۔ عام طورپر سمجھا جاتاهے كه اِن اختلافات كا سبب مدارس كا نصاب هے۔ ان كے خيال كے مطابق، اگر مدارس كے نصاب ميں اصلاح كردي جائے تو اختلاف كا خاتمه هوجائے گا اور لوگوں كے اندر اتحاد واتفاق كي حالت قائم هوجائے گي۔

مگر يه اصل صورتِ حال كا كم تر اندازه (underestimation) هے۔ حقيقت يه هے كه اختلاف كا سبب فطرتِ انساني ميں هے، نه كه مدارس كے نصاب ميں۔ پيدائش كے اعتبار سے، هر مرد مسٹر ڈفرنٹ(Mr. Different) هوتا هے اور هر عورت مس ڈفرنٹ۔

يهي فطري فرق اختلاف كا اصل سبب هے۔ اگر تمام مدارس كا نصاب ايك كرديا جائے تب بھي اختلاف باقي رهے گا، كيوں كه خواه نصاب كي سطح پر اختلاف نه هو تب بھي فطرت كي سطح پر اختلاف موجود رهے گا، وه كبھي ختم هونے والا نهيں۔

حضرت علي اور حضرت معاويه دونوں ايك هي مدرسه، مدرسهٔ نبوت، كے تعليم يافته تھے، اِس كے باوجود دونوں ميں اختلاف پيدا هوا۔ ابو الحسن اشعري اور واصل بن عطاء دونوں ايك هي مدرسے كے تعليم يافته تھے، اِس كے باوجود دونوں ميں اختلاف پيدا هوا۔

موجوده زمانے ميں سرسيد احمد خاں اور مولانا قاسم نانوتوي دونوں ايك هي مدرسه كے تعليم يافته تھے، اِس كے باوجود دونوں كے درميان اختلاف پيدا هوا۔ مولانا شبير احمد عثماني اور مولانا حسين احمد مدني دونوں ايك هي مدرسه كے تعليم يافته تھے، اِس كے باوجود دونوں ميں اختلاف پيدا هوا۔ مولانا سيدسليمان ندوي اور مولانا مسعود علي ندوي دونوں ايك هي مدرسه كے تعليم يافته تھے، اِس كے باوجود دونوں ميں اختلاف پيدا هوا۔

اصل يه هے كه خواه دو آدميوں نے ايك هي مدرسه اور ايك هي نصاب كے تحت تعليم پائي هو، ليكن طرز فكر (way of thinking) كي سطح پر هميشه ايك آدمي اور دوسرے آدمي كے درميان فرق هوتا هے۔ يهي فرق هے جو اختلاف كا سبب بن جاتا هے۔ اِس كے بعد وه بڑھ كر نفرت اور تشدد تك پهنچ جاتا هے۔ يه اختلاف يا فرق چوں كه فطرتِ انساني كا حصه هے، اِس ليے وه كبھي ختم هونے والا نهيں۔ ايسي حالت ميں اختلاف كے مسئلے كا حل يه نهيں هے كه ناكام طورپر اس كو ختم كرنے كي كوشش كي جائے، بلكه اس كا حل يه هے كه لوگوں كو اُس اصول كي تعليم دي جائے جس كو ’’اختلاف كے باوجود اتحاد‘‘ كهاجاتا هے، يعني رائے (opinion) كي سطح پر اختلاف، ليكن سماجي تعلق (social relationship) كي سطح پر اتفاق۔

انسانوں كے طرز فكر ميں اختلاف كوئي غير مطلوب چيز نهيں، بلكه وه عين مطلوب هے۔ كيوں كه اِس اختلاف كي بنا پر ايسا هوتا هے كه لوگوں كے درميان ڈسكشن اور ڈائيلاگ هوتا هے، اور ڈسكشن اور ڈائيلاگ ذهني ارتقا كا ذريعه هے۔ جهاں ڈسكشن اور ڈائيلاگ نه هو، وهاں يقيني طورپر ذهني جمود (intellectual stagnation) پيدا هوجائے گا، اور ذهني جمود سے زياده تباه كن اور كوئي چيز انسان كے لئے نهيں۔

—™™

مثبت سوچ

ايك هندستاني كو پهلي بار جاپان جانے كا موقع ملا۔ ايك روز انھوں نے اپنے جاپاني ميزبان سے ازراهِ همدردي كها:’’آپ لوگوں كے ساتھ امريكا نے بڑا ظلم كيا۔ اس نے تاريخ كے پهلے ايٹم بم آپ كے ملك پر گرائے اور آپ كے دو شهروں كو كھنڈر بناديا۔‘‘

’’نهيں كوئي كوئي ظلم نهيں‘‘ جاپاني نے كها۔ ’’يه بم تو همارے لئے رحمت ثابت هوئے۔ همارے يه شهر قديم طرز پر آباد تھے۔ تنگ اور خم دار سڑكيں، فرسوده مكانات، گندے  محلّے، ان كا نام تھا هيرو شيما اور ناگاساكي۔ معمولي حالات ميں هم نئے طرز پر ان كي تعمير نهيں كرسكتے تھے۔ مگر جب جنگ نے اچانك ان كو صفحهٔ هستي سے مٹا ديا تو هم كو موقع مل گيا اور هم نے قديم ملبه پر انتهائي جديد قسم كے منصوبه بند شهر آباد كردئيے‘‘۔مثبت سوچ اسي طرح كام كرتي هيں۔ وه هر بربادي ميں اپنے لئے نئي تعمير كے امكانات ڈھونڈھ ليتي هيں۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom