سكينه كيا هے
قرآن ميں حديبيه معاهدے كے تحت جو آيتيں آئي هيں، اُن ميں سے ايك آيت يه هے: هُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ فِيْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ لِيَزْدَادُوْٓا اِيْمَانًا مَّعَ اِيْمَانِهِمْ ۭ وَلِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَكِـيْماً (48:4) يعني الله هي هے جس نے اهلِ ايمان كے دلوں ميں سكينه نازل كيا تاكه اور بڑھ جائے اُن كا ايمان اپنے ايمان كے ساتھ۔ اور الله هي كے هيں سب لشكر آسمانوں اور زمين كے اور الله هے خبر دار، حكمت والا۔
سكينه كا لفظي مطلب اطمينان (tranquility) هے۔ قرآن كي اِس آيت ميں سكينه كا مطلب يه هے كه حديبيه معاهدے كي شرطيں اگرچه اصحاب رسول كي مرضي كے خلاف تھيں، ليكن الله كے حكم كي بنا پر وه اُس پر راضي هوگئے۔ اِس رضامندي كے باعث، الله نے اُن پر يه خصوصي فضل كيا كه اُن پر اپني وه خاص رحمت نازل فرمائي جو اُنھيں قلبي اعتبار سے اُس پر مطمئن كردے اور جس فيصلے پر وه بظاهر ناگواري كے ساتھ راضي هوئے تھے، اُس كو اُن كے ليے ايك خوش گوار تجربه بنادے۔
زندگي ميں بار بار ايسا هوتا هے كه آدمي كے ساتھ كوئي ناپسنديده صورت پيش آتي هے۔ مثلاً كسي عزيز كي موت، كوئي مالي نقصان، كسي كي طرف سے بے عزتي كا معامله، وغيره۔ اِس طرح كامعامله آدمي كے ليے هميشه صدمه (shock) كا سبب بنتا هے۔ ليكن اگر آدمي الله كے حكم (البقرة 155) كي بنا پر صبر كرلے اور رد عمل كا اظهار نه كرے تو اپنے اِس عمل كي بنا پر وه الله كي خصوصي نصرت كا مستحق بن جاتا هے، وه يه كه جس چيز كو اُس نے ابتداء ً اپني طبيعت پر جبر كركے اختيار كيا تھا، اس كو اس كے ليے ايك خوش گوار واقعه بنا ديا جائے۔
يهي مطلب هے ’’ايمان پر ايمان كے اضافه‘‘ كا، يعني صبر كے معامله كو اطمينان كا معامله بنادينا۔ مومن كے دل ميں پيدا هونے والي اِسي كيفيت كو قرآن كي مذكوره آيت ميں ’ازديادِ ايمان‘ كهاگيا هے۔