هلاكت كيا هے
ايك روايت كے مطابق، رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: إذا سمعت الرجل يقول هلك الناس فهو أهلكهم (موطا امام مالك، حديث نمبر1802) يعني جب تم كسي كو يه كهتے هوئے سنو كه لوگ هلاك هوگئے تو سب سے زياده هلاكت ميں وهي شخص هے۔
اِس حديثِ رسول ميں ’هلك الناس‘اپنے لفظي معني ميں نهيں هے۔ اِس ليے كه يه ثابت هے كه رسول اور اصحابِ رسول نے خود بھي يه زبان استعمال كي۔ مثلاً حضرت علي بن ابي طالب نے ايك قاضي سےكها كه: هلكتَ وأهلكتَ (السنن الكبرى للبيهقي، حديث نمبر 20857) يعنيتم خود بھي هلاك هوئے اور تم نے دوسروں كو بھي هلاك كيا۔
اِس حديث رسول ميں جس روش كي مذمت كي گئي هے، وه دراصل تنقيد برائے تنقيد (criticism for the sake of criticism) هے، يعني لوگوں كو برا بتانا، ليكن يه نه بتانا كه ان كے ليے صحيح بات كياهے۔ دوسروں كے خلاف منفي ريمارك دينا، ليكن مثبت نصيحت كا طريقه اختيار نه كرنا۔ بے دليل تنقيد كرنا، ليكن مدلل تجزيه كے ذريعے يه نه بتانا كه صحيح كيا هے اور غلط كيا۔ نفرت كي زبان ميں لوگوں كي مذمت كرنا، ليكن خير خواهي كے انداز ميں ان كو نصيحت نه كرنا۔
بلا دليل تنقيد كا فائده تو كچھ نهيں، مگر اس كا نقصان بهت زياده هے۔ بادليل تنقيد سے لوگوں كے اندر محاسبه (introspection) كا مزاج بنتا هے۔ اِس كے برعكس، بے دليل تنقيد سے لوگوں كے اندر نفرت اور بے اعترافي كا مزاج بنتا هے۔ بادليل تنقيد، اصلاح كا ذريعه هے۔ اور بے دليل تنقيد صرف فساد كا ذريعه۔ صالح تنقيد وه هے جس ميں خير خواهي كا جذبه پايا جائے۔ جس كا مقصد فريق ثاني كي اصلاح هو۔ اس كے برعكس غير صالح تنقيد كا مقصد صرف يه هوتا هے كه دوسرے كو بے عزت كرنا اور اس كي برائي بيان كرنا۔ صالح تنقيد اسلام ميں عين مطلوب هے۔ اِس كے برعكس، غير صالح تنقيد كے ليے اسلام ميں كوئي جگه نهيں۔