دوآپشن كے درميان
مولانا ابو الكلام آزاد (وفات:1958) نے اپنے بارے ميں لكھا هے:
’’زمانے نے ميري صلاحيتوں كي قدر نه كي.....‘‘
مولانا آزاد كے اِس جملے كا مطلب يه تھا كه پيدائشي فطرت كے اعتبار سے، وه اعلي صلاحيت كے مالك تھے، ليكن دوسرے لوگوں نے اُن كو نهيں پهچانا، اِس ليے ان كي صلاحيت پوري طرح استعمال نه هوسكي۔مولانا ابو الكلام آزاد كا يه احساس صرف ايك آدمي كا احساس نهيں هے۔تاريخ ميں بهت سے ايسے انسان هيں جو اپنے احساس كے اعتبار سے غير استعمال شده شخصيت كي حيثيت سے جيے اور اسي احساس كے ساتھ وه اِس دنيا سے چلے گيے۔ ايسے افراد كو بظاهر دوسرے لوگوں سے شكايت تھي، مگر حقيقت يه هے كه ايسے افراد اپنے اِس احساس كے ليے تمام تر خود ذمے دار تھے، نه كه كوئي دوسرا شخص۔
خالق نے موجوده دنيا كو جس قانون كے تحت بنايا هے، اس كے مطابق، كسي انسان كے ليے يهاں صرف دو ميں سے ايك كا انتخاب (option) هے۔ ايك يه كه وه كسي دوسرے كے بنائے هوئے اسٹيبلشمنٹ كے آگے سرينڈر كرے، يا وه اپنے ليے ايك خود تعمير كرده دنيا (self-created world) كو تخليق كرے اور اس كے اندر اپني مرضي كے مطابق رهے۔ اِن دو كے سواكوئي اور انتخاب كسي شخص كے ليے ممكن نهيں۔
موجوده دنيا مسابقت (competition) كے اصول پر مبني هے۔ اس دنيا ميں يه ناممكن هے كه كوئي دوسرا شخص آپ كي قدر وقيمت كو پهچانے، اور وه آپ كے ساتھ وه سلوك كرے، جو بطور خود آپ اُس سے چاهتے هيں۔ ايسا كبھي كسي انسان كے لئے نهيں هوا۔ صلاحيتوں كو دينے والا الله رب العالمين هے اور صلاحيتوں كا استعمال وهي شخص كرتا هے جس كو صلاحيت دي گئي هے۔ دوسرے آدمي سے زياده سے زياده جو اميد كي جاسكتي هے وه يه هے كه وه آپ كے كيے هوئے كام كا اعتراف كرے۔اِس دنيا ميں كوئي بھي شخص آپ كے حصے كا كام نهيں كرسكتا۔ موجوده دنيا كے لئے يه مقوله بالكل درست هے— كرو يا مرو Do or die