اختلافِ رائے
ايك بار ميري ملاقات ايك مغربي اسكالر سے هوئي۔ ميں نے پوچھا كه اهلِ مغرب كي ترقي كا راز كيا هے۔ انھوں نے جواب ديا — اختلافِ رائے (dissent) كو انسان كا مقدس حق قرار دينا۔ يه بلاشبهه ايك درست بات هے۔
ليكن وه مغربي فكر كي بات نهيں، وه فطرت كا ايك قانون هے۔ اِس قانون كو ايك حديث ِ رسول ميں اِن الفاظ ميں بيان كيا گيا هے: اختلاف أمتي رحمة۔(المقاصد الحسنة، حديث نمبر39 :)
اختلافِ رائے كا اظهار هميشه تنقيد (criticism)كي صورت ميں هوتا هے۔ مگر تنقيد خواه وه كسي شخص كے حوالے سے كي گئي هو، وه اپني حقيقت كے اعتبار سے مطالعے كي ايك صورت هوتي هے۔ تنقيد كا اصل مقصد كسي موضوع پر كھلے تبادله خيال (open discussion) كا آغاز كرنا هوتا هے۔ تنقيد كا مقصد يه هے كه مختلف ذهن (mind)ديانت دارانه طورپر (honestly)اپنے نتيجهٔ تحقيق كو بتائيں اور پھر دوسرے لوگ ديانت داري كے ساتھ اُس پر اپنے خيالات كا اظهار كريں۔ اِس طرح كا آزادانه تبادله خيال ذهني ارتقا (intellectual development) كا لازمي تقاضا هے۔
علم اپني نوعيت كے اعتبار سے ايك لامحدود موضوع هے۔ يه بات مذهبي موضوع پر بھي اُسي طرح صادق آتي هے جس طرح سيكولر موضوع پر۔ اختلافِ رائے بلاشبهه ايك رحمت هے۔ اختلافِ رائے هر حال ميں مفيد هے۔ اِس معاملے ميں اگر كوئي شرط هے تو وه صرف ايك هے، وه يه كه اختلاف كرنے والا مسلّمه دليل كي بنياد پر اختلاف كرے، وه الزام تراشي كا طريقه اختيار نه كرے۔
اختلافِ رائے كے فائدے بے شمار هيں۔ اِس سے مسئله زير بحث كے نئے پهلو سامنے آتے هيں۔ اِس سے تخليقي فكر (creative thinking) ميں اضافه هوتا هے۔ اِس كے ذريعے لوگوں كو موقع ملتاهے كه وه دوسرے كے نتيجه فكر سے فائده اٹھائيں۔ اِس سے مسئله زير بحث كے مخفي گوشے سامنے آتے هيں، وغيره۔