انسان کا المیہ
قرآن (17:70) کے مطابق انسان ایک مکرم مخلوق (honourable creature) کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے۔ فطرت کے اعتبار سے انسان کے اندر غیر معمولی امکانات (potential) موجود ہیں۔ مگر بہت کم ایسے انسان ملیں گے جنھوں نے اپنے فطری امکان (potential)کو واقعہ (actual) بنایا ہو۔بیشتر انسان عملاً کمتر استعمال کا کیس (case of under-utilization) بن کر رہ گیے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاہُ بِہَا وَلَکِنَّہُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ (7:176) ۔یعنی قانونِ فطرت کے مطابق، اس کو موقع تھا کہ وہ اپنے آپ کو انسانیت کے اعلی مقام پر پہنچائے، مگر وہ عملاً حیوان جیسی کمتر زندگی پر قانع ہو کر رہ گیا۔
یہ تاریخ کا ایک حادثہ ہے۔ اور اس حادثہ کو بلاشبہ تاریخ کا سب سے بڑا المیہ (greatest tragedy) کہا جاسکتا ہے۔ تاریخ کے ریکارڈ کے مطابق ، محفوظ طور پر کہا جاسکتا ہےکہ بیشتر انسان نے دو میں سے ایک غلطی کاارتکاب کیا ۔ یا وہ اپنے کمتر استعمال کا کیس بن گیا اور کسی نےیہ شدید تر غلطی کی کہ اس نے اپنی صلاحیت کا غلط استعمال کیا۔اپنی اعلی صلاحیت کو انسانیت کی تعمیر کے بجائے انسانیت کی تخریب میں لگا دیا۔
دنیا کے فنکار (artist) اپنی تخلیقی صلاحیت کے کمتر استعمال کی مثال ہیں۔ انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیت کا ایک ایسا استعمال کیا جس کو فطرت کے نقشہ کے مطابق، اعلی استعمال کے بجائے ادنیٰ استعمال کہا جاسکتا ہے۔ اپنی صلاحیتوں کا غلط استعمال کی مثال دنیا کے تمام ڈکٹیٹر ہیں۔ ا ن کو فطرت نے غیر معمولی صلاحیت دی تھی۔ لیکن وہ فطرت کی آواز کو سن نہ سکے۔ انھوں نے صرف اپنی اَنا (ego) کو جانا۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہ صرف تخریب کاری کی مثال قائم کرکے دنیا سے چلے گیے۔کامیاب انسان وہ ہے جو خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق اپنے آپ کواستعمال کرے۔