تالیفِ قلب

تالیف قلب کا مطلب ہے دل میں نرم گوشہ (soft corner)پیدا کرنا۔ ایسے لوگوں کے لیے قرآن میں مؤلفۃ القلوب (9:60) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ تالیف قلب کا تعلق دعوتی اخلاقیات سے ہے۔ مدعو کے ساتھ اس نوعیت کا حسنِ سلوک (friendly behaviour) جس سے مدعو کے دل میں اسلام سے قربت پیدا ہو، وہ معتدل ذہن کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرے، وہ کسی تعصب کے بغیر کھلے ذہن کے ساتھ اسلام کو سمجھے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو تجارتی تعلقات کے دائرے میں کسٹمر فرینڈلی بیہیویر (customer-friendly behaviour) کہا جاتا ہے۔

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تالیف قلب کی ایک مثال وہ ہے جب کہ ہجرت کے بعد آپ نے اپنی نماز کے لیے کعبہ کے بجائے یہود کے قبلہ کو اپنا قبلہ بنالیا۔ مفسر النسفی نے اپنی تفسیر مدارک التنزیل و حقائق التاویل میں تالیف قلب کی پیغمبرانہ مثال دیتے ہوئے لکھا ہے: روى أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کان یصلی بمکة إلى الکعبة ثم أمر بالصلاة إلى صخرة بیت المقدس بعد الہجرة تألیفاً للیہود ثم حول إلى الکعبة (تفسیر النسفی، بیروت، 1998، جلد 1، البقرۃ آیت143) ۔ یعنی روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کعبہ کا طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے، پھر ہجرت کے بعد آپ کو حکم ہوا کہ آپ اپنی نماز قبلہ ٔ یہود صخرۃ کی طرف رخ کرکے ادا کریں، ایسا یہود کی تالیف قلب کے لیے کیا گیا، پھر بعد کو آپ کا قبلہ کعبہ کی طرف کردیا گیا۔

تالیف قلب اسلام کی ایک جامع تعلیم ہے۔ اس کی ضرورت ہمیشہ باقی رہے گی۔ مومن کے لیے ہر انسان مدعو ہے۔ اس لیے مومن کو ہر انسان کے ساتھ تالیف قلب کے اصول پر معاملہ کرنا ہے۔ تالیف قلب کا اصول کو ئی وقتی یا محدود اصول نہیں ہے، وہ ہمیشہ کے لیے اہل ایمان سے مطلوب ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتدائی زمانے میں سورہ المدثر اتری۔ اس سورہ میں دعوت کا حکم دیتے ہوئےایک اصول یہ دیا گیا کہ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ (74:6) یعنی اور ایسا نہ کرو کہ احسان کرو اور بہت بدلہ چاہو۔ اس حکم کا تعلق دعوت کے عمل سے ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت کا کام اس طرح کرنا چاہیے کہ داعی کو یہ امید نہیں رکھنا چاہیے کہ مدعو کی طرف سے اس کو اچھا جواب ملے گا:

Do good without expecting anything in return

یہود کی تالیف کے لیے یہود کے قبلۂ عبادت کو اپنا قبلہ بنانا،بتاتا ہے کہ تالیف قلب کی کوئی حد نہیں۔ اس کے لیے مومن کو ہر تدبیر اختیار کرنا جائز ہے۔ شرط اگر ہے تو صرف یہ کہ مومن کی نیت کسی ذاتی مفاد کو حاصل کرنا نہ ہو بلکہ اس کا مقصد صرف یہ ہو کہ مدعو کے دل میں اسلام کے لیے نرم گوشہ (soft corner) پیدا ہو، اور وہ کھلے ذہن کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرے۔

پیغمبر اسلام کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہر ممکن طریقے سے مدعو کی تالیف قلب کرنے کی کوشش کی۔ مثلا مکی دور میں کعبہ کے اندر بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کرکے لوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچانا، کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا بغیر احتجاج کیے ہوئےجب کہ کعبہ کے اندر 360 بت رکھے ہوئے تھے، غزوہ حنین میں آپ کو بڑی تعداد میں مالِ غنیمت حاصل ہوا تھا، آپ نے اس کی بڑی مقدار ان لوگوں کو دے دی جنھوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ ایسا آپ نے ان لوگوں کی تالیف قلب کے لیے کیا تھا۔

تالیف قلب کا ایک واقعہ وہ ہے جو حدیبیہ معاہدہ کی بات چیت کے دورا ن پیش آیا۔ حدیبیہ معاہدہ کی بات چیت تقریبا دو ہفتہ تک جاری رہی تھی۔ اس مدت میں تالیف کے مختلف واقعات پیش آئے۔ ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ آپ کو یہ معلوم ہوا کہ قبیلہ بنی کنانہ کا سردار الحلیس بن علقمہ قریش کی طرف سے آپ سے بات چیت کے لیے آرہا ہے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے کہا کہ یہ قبیلہ قربانی کےاونٹوں کی تعظیم کرتا ہے، وہ اس کو الٰہ کا درجہ دیتا ہے۔ اس لیے تم اس کے استقبال کے لیے اونٹ لے کر نکلو۔ چناں چہ صحابہ نے ایسے ہی کیا ۔ وہ آدمی بہت خوش ہوا۔ اور واپس جاکر قریش کو بہت مثبت رپورٹ دی۔ یہ واقعہ صحیح البخاری حدیث نمبر 2731، اور مسند احمد، حدیث نمبر18928 میں آیا ہے۔ اس کے علاوہ سیرۃ ابن ہشام، مغازی الواقدی، سیرۃ ابن کثیر،الروض الانف وغیرہ کتب سیرت میں آیا ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان تالیف قلب کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، بشرطیکہ ان کا یہ فعل خالصۃ دعوت الی اللہ کے لیے ہو۔ اس حدیث کو اگر لفظا لیا جائے تو شاید یہ کہنا درست ہوگا کہ اگر کوئی مسلم لیڈر ہندستانیوں سے گفت و شنید کر رہا ہو، اور اس درمیان اس کو بتایا جائے کہ ایک ہندو لیڈر اس سے ملنے کے لیے آرہاہے۔ تو اس موقع پرمسلم لیڈر کے لیے یہ کرناجائز ہوگا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو کہے کہ اس ہندو لیڈرکے یہاں گائے کی پوجا کی جاتی ہے، اس لیے تم اس کا اس طرح استقبال کرو کہ اس کے پاس گائے لے کر جاؤ۔ تو ایسا کرنا اس کے لیے جائز ہوگا۔

اسی طرح کا ایک واقعہ وہ ہے جو نجران کے عیسائیوں کے ساتھ پیش آیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے مدینہ آئے۔ یہاں انھوں نے مدینہ کی مسجد ِ نبوی کے اندر اپنے طریقے کے مطابق عبادت کی ۔ روایت کے مطابق انھوں نے اپنی یہ عبادت مشرق کی طرف رخ کرکے کی(فصلوا إلى المشرق) سیرۃ ابن ہشام (1/574) ،جب کہ مدینہ سے کعبہ کا رخ اس سے مختلف تھا۔

ملّی تعمیر کاکام سب سے پہلے ملّت کے افراد میں

شعور پیدا کرنے کا کام ہے۔ اِس کی بہترین صورت یہ ہے کہ

الرسالہ مشن کو ایک ایک بستی اور ایک ایک گھر میں پہنچایا جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom