تعلق باللہ
تعلق باللہ کے سلسلے میں جو آیتیں قرآن میں آئی ہیں ، ان میں سے ایک آیت یہ ہے: وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ (2:186)یعنی اور جب میرے بندے تم سے میری بابت پوچھیں تو میں نزدیک ہوں، مَیں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب کہ وہ مجھے پکارتا ہے، تو چاہئے کہ وہ میری بات کو مانیں اور مجھ پر یقین رکھیں، تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
قرآن کی اس آیت میں یہ تو بتایا گیا ہے کہ اللہ پکار کا جواب دیتا ہے۔ لیکن یہ جواب کس صورت میں آتا ہے، اس کا ذکر اس آیت میں نہیں۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے ہدایت آنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بندے کو داخلی اعتبار سے شرحِ صدر ہوجائے۔
اس شرحِ صدر کو دوسرے الفاظ میں الہام(inspiration) کہا جاسکتا ہے۔ مثلا حضرت آدم کی یہ دعا قرآن میںان الفاظ میں مذکور ہوئی ہے: قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ (7:23) ۔ اس دعاء کے بارے میں غالباً یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہ دعا ء کوئی وحی نہ تھی، بلکہ وہ الہام یا القاء کی صورت میں حضرت آدم کو حاصل ہوئی۔ اسی طرح حضرت یونس کے بارے میں آیا ہے: فَنَادَى فِی الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ (21:87) یہ دعاء بھی بظاہر وحی نہ تھی، بلکہ وہ حضرت یونس کے خود اپنے اندرسے اعترافِ خطا کے بعد سے نکلی۔ بندہ اگر سچے دل سے اپنے رب کو پکارے۔ پھر شرح صدر کی صورت میں اس کے دل میں کوئی بات آجائے، یا وہ کوئی واضح خواب دیکھ لے، یا اس کا ذہن کسی امر کی طرف منتقل ہوجائے توقرین ِ قیاس یہ ہے کہ اس طرح کا ہر تجربہ اللہ کی طرف سے بطور جواب آیا ہے۔ تاہم بندے کو ایسا سمجھنے کا حق صرف اس وقت ہے جب کہ اس کا ذہن اور اس کا ضمیر اور اس کا فہم دین پوری طرح اس کی صداقت پر مطمئن ہوجائے۔