تاریخ کا سفر
قرآن کی سورہ نمبر 93 کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَلَلْآخِرَةُ خَیْرٌ لَکَ مِنَ الْأُولَى (الضحیٰ :4)اور یقینا تمھارا اگلا، تمھارے لیے پچھلے سے بہتر ہے۔ قرآن کا یہ بیان کسی محدود معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ انسانی تاریخ کے بارے میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کے لیے تاریخ کا بعد کا دور ان کے پچھلے دور سے بہتر ہوگا۔
قرآن ساتویں صدی عیسوی میں اترا ۔ اس وقت اس اعلان کا مطلب یہ تھا کہ قرآن کے ذریعے تاریخ میں ایک نیا عمل (process) جاری ہوا ہے۔ یہ عمل بڑھتا رہے گا۔ یہاں تک کہ تاریخ میں ایک نیا دور آجائے، ایک ایسا دور جو اہل ایمان کے لیے پچھلے تمام ادوار سے بہتر حالات والا دور ہوگا۔ اکیسویں صدی اسی تبدیلی کا نقطۂ انتہا (culmination) ہے۔
قدیم دور مذہبی جبر کا دور تھا، موجودہ دور مذہبی آزادی کا دور ہے۔ قدیم دور حافظہ اور کتابت کا دور تھا، اب پرنٹنگ پریس کا دور ہے۔ قدیم دور روایتی دور تھا، موجودہ دور سائنسی دور ہے۔ قدیم دور تنگ نظری کا دور تھا، موجودہ دور کھلے پن (openness)کا دور ہے۔ قدیم دور لوکل دعوت کا دور تھا، موجودہ دور ٹکنالوجی کے ذریعے عالمی دعوت کا دور ہے، وغیرہ۔
اسی طرح قدیم دور جنگ اور تشدد کا دور تھا، موجودہ دور امن کا دور ہے۔ قدیم دور میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ کوئی چیز صرف لڑائی کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے، موجودہ دور میں یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ایک بڑے مقصد کو مکمل طور پر امن ذریعے سے حاصل کیا جاسکے۔
اس فرق کا سب سے بڑا ظاہرہ دعوت اور تبلیغ کے میدان میں ہوا ہے۔ قدیم زمانے میں دعوت و تبلیغ کا کام پر امن طور پر کرنا ممکن نہیں تھا۔ موجودہ زمانے میں پر امن دعوت کا کام انتہائی حد تک ممکن ہوگیا ہے۔ قدیم زمانے میں دعوت کا کام صرف لوکل طور پر انجام دیا جاسکتا تھا، اب دعوت کا کام عالمی طور پر انجام دیا جا سکتا ہے، وغیرہ۔