شیطان اور فرشتہ کے درمیان
قرآن کے مطابق، ہر انسان ہر وقت دو طاقتوں کے درمیان ہوتاہے— فرشتہ اور شیطان۔ ہر موقعے پر فرشتہ اور شیطان دونوں متحرک ہوجاتے ہیں۔فرشتہ کے لیے انسان کے اندر داخلے کا راستہ (entry point) اس کا ضمیر (conscience) ہے۔ شیطان کے لیے انسان کے اندر داخلے کا دروازہ اس کا ایگو (ego) ہے۔ فرشتہ ہر موقع پر آدمی کو صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس کے برعکس، شیطان ہر موقعے پر انسان کو غلط راستہ دکھاتا ہے۔ انسان جس کی رہنمائی سے متاثر ہوجائے ، اسی کی طرف وہ چل پڑے گا۔
اس معاملے کی ایک تاریخی مثال وہ ہے، جس کا تعلق خلیفۂ ثانی عمر بن خطاب سے ہے۔ ان کے زمانے میں مدینہ میں ایک نصرانی ابو لو ٔلو ٔ فیروز رہتا تھا۔ اس نے خلیفہ ثانی سے شکایت کی کہ میرا خراج زیادہ ہے۔خلیفہ ثانی نے اس سے خراج کی مقدار پوچھی۔ ابولو ٔلو ٔ فیروز نے بتایا ۔ پھر خلیفہ ثانی نے اس سے آمدنی پوچھی، تو اس نے بتایا۔ تو خلیفہ ثانی نے کہا کہ آمدنی کے لحاظ سے تمھارا خراج زیادہ نہیں ہے۔ ابولولو اس پر غصہ ہو گیا۔ وہ ایک دن فجر کے وقت مدینہ کی مسجد میں داخل ہوا، اورخنجر مار کر خلیفہ ثانی کو قتل کردیا۔(ابن اثیر، الکامل فی التاریخ،طبعۃ بیروت: 1979 3/49-50)
خلیفہ ثانی عمر بن خطاب بلاشبہ ایک عادل حکمراں تھے۔ انھوں نے ایشیا اور افریقہ کے بڑے رقبے میں امن اور قسط کا نظام قائم کیا تھا۔ لیکن ابولؤلؤ فیروز نے اتنے بڑے واقعے کو نہیں دیکھا۔ وہ ایک چھوٹے سے واقعہ پر غصہ ہوگیا، یہاں تک کہ اس نے خلیفہ کو قتل کردیا۔ اس وقت اس پر شیطان کا غلبہ ہوگیا تھا۔بڑا واقعہ اس کو چھوٹا نظر آیا، اور چھوٹا واقعہ اس کو بڑا دکھائی دیا۔حتی کہ ایک عادل حکمراں اس کی نظر میں ایک ظالم حکمراں بن گیا۔ اس واقعے میں ہر عورت اور ہر مرد کے لیے سبق ہے۔ جب بھی کوئی شخص غصہ ہوتو اس کو اس سے بچنا چاہیے کہ وہ معاملے کے بڑے پہلو کو چھوٹا سمجھے، اور معاملے کے چھوٹے پہلو کو بڑا سمجھنے لگے۔ اگر ایسا ہو تو اس کو سمجھنا چاہیے کہ وہ شیطان کے قبضے میں آگیا ہے۔