تحریک اور دعاء
تحریک (movement) دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک وہ تحریک جو عوامی بنیاد (popular base) کی بنیاد پر کھڑی ہو۔ یعنی ایک چیز جس کے لیے لوگوں کے اندر پہلے سے جذبہ موجود ہو، اس کے لیے تحریک برپا کرنا۔ ایسی تحریک میں نفسیاتی طور پر اس بات کی ضرورت نہیں ہوتی کہ داعی باخع النفس (26:3) بن کر اللہ سے دعا کرے۔ جو قائدعوامی جوش و خروش والے کام کے لیے کھڑا ہو اس کے پیچھے اپنے آپ لوگوں کی بھیڑ جمع ہوجائے گی۔ ایسی تحریک میں کامیابی کےلیے پرجوش خطابت کافی ہوتی ہے۔ چناں چہ جو لوگ ایسی تحریک کے لیے اٹھیں، ان کے اندر نفسیاتی طور پر یہ جذبہ پیدا ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے مشن کی کامیابی کے لیے اللہ سے دعا کریں۔
مثلا ریلیف ورک، سوشل ورک، ملی ورک، فلاحی ورک، اور قومی کام ، وغیرہ ۔ یہ وہ کام ہیں جن کا تقاضا ہمیشہ پہلے سے لوگوں کے ذہن میں شدت سے موجود ہوتا ہے۔ اس لیے اس طرح کے عوامی کام کے لیے لوگوں کو صرف کال (call)دینا کافی ہوتاہے۔ لوگ پکار سنتے ہی اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ اس طرح کے اشو پر جب کوئی جلسہ کیا جائے تو ایسا جلسہ اپنے آپ ایک ’’عظیم الشان جلسہ‘‘ بن جاتا ہے۔
دعوت الی اللہ کا کام اس کے برعکس کام کی مثال ہے۔ دعوت الی اللہ ایک ایسا کام ہے جس کے لیے پیشگی طور پر لوگوں کے اندر جوش و خروش موجود نہیں ہوتا۔ دعوت الی اللہ کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ انسان اپنے اندر منفی سوچ کو ختم کرے، اور مثبت سوچ کو پیدا کرے۔ وہ لوگوں سے نفرت کے بجائے محبت کرنا سیکھے، وہ لوگوں کے ظلم کو بھلا کر یک طرفہ طور پر ان کا خیر خواہ بنے ۔ کسی دنیوی کشش کے بغیر صرف آخرت کے جذبے کے تحت لوگوں کو اللہ کی طرف پکارنے کے لیے اٹھے۔ وہ ظالم اور مظلوم کی مساوات (equation) کو کامل طور پر چھوڑدے، اور داعی اور مدعو کی مساوات (equation) کو دل سے اختیار کرے۔
دعوت الی اللہ کا یہ کام عوامی ذوق کے خلاف ایک کام ہے۔ اس بنا پر بنی بنائی بھیڑ اس کے لیےکبھی موجود نہیں ہوتی۔ ایسی تحریک کا ساتھ صرف وہ لوگ دیتے ہیں جو تلاشِ حق کا جذبہ اپنے اندر رکھتے ہوں۔ ایسے لوگ کہیں ایک جگہ موجود نہیں ہوتے۔ وہ مختلف مقامات پر بکھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اکٹھا کرکے ایک ٹیم بنانا کسی انسان کے بس میں نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے دعوت الی اللہ کی تحریک اپنے آغاز ہی سے ایک مبنی بر دعاء تحریک بن جاتی ہے۔ داعی کو اول دن سے دعا کو اپنی تحریک کا لازمی جزء بنانا پڑتا ہے۔ کیوں کہ یہ صرف اللہ عالم الغیب ہے جو جانتا ہے کہ حق کے متلاشی افراد کہاں کہاں موجود ہیں۔ وہ اس قسم کے بکھرے ہوئے افراد کو منتخب کرکے ان کو داعی کا ساتھی بنا دیتا ہے۔
ہر تحریک کی ایک نفسیات ہوتی ہے۔ ہر تحریک اپنی نفسیات کے اعتبار سے تحریک کے داعی کے اندر مخصوص مزاج بناتی ہے۔ مثلاً عوامی تحریک عملا ایک انسان رخی تحریک ہوتی ہے۔ اس کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ کس طرح وہ بات کہی جائے جو عوام کے اندر جوش خروش پیدا کرے، اور وہ تحریک کی حمایت کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ اس کے برعکس، دعوت کی تحریک ایک خدا رخی تحریک ہوتی ہے۔ اس کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ سے نصرت کی دعا کی جائے، زیادہ سے زیادہ اللہ کو اپنی مدد کے لیے پکارا جائے۔ دعوت کی تحریک میں جو درجہ اللہ کا ہوتا ہے، عوامی تحریکوں میں وہی درجہ عملا ًعوام کا بن جاتا ہے۔ دعوت الی اللہ کے کام میں داعی کا کنسرن (concern)اللہ ہوتا ہے۔ جب کہ عوامی ذوق کا کام کرنے والوں کے لیے خود عوام اس کا کنسرن (concern) بن جاتے ہیں۔
عوامی تحریک کی کامیابی یہ ہے کہ عوام کی بھیڑ اس کے گرد جمع ہوجائے۔ اس کے نام پر بڑے بڑے جلسے ہونے لگیں۔چندا دینے والے اس کے نام پر اپنی جیبیں خالی کردیں۔ اس کے برعکس، دعوت الی اللہ کے کام کی کامیابی یہ ہے کہ وہ وَلَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ (22:40) کی مصداق بن جائے۔اس کی مجالس میں فرشتے شرکت کریں۔