توسط اور اعتدال
حدیث میں آیا ہے :خیر الأمور أوساطہا۔(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر: 6175) یعنی معاملات میں درمیانی طریقہ خیر کا طریقہ ہوتا ہے۔ یعنی عملی رعایت کا طریقہ۔ دین میں اعتدال کی بہت اہمیت ہے مگر اعتدال کی اہمیت با اعتبار ابدی اصول نہیں ہے بلکہ اس کی اہمیت عملی حکمت (practical wisdom)کی بنا پر ہے۔ دوسرے الفاظ میںاعتدال کا مسئلہ عقیدہ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ عملی ضرورت کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلہ میں دو باتیں بے حد اہم ہیں۔
ایک یہ کہ اعتدال کا تعلق عقائد سے نہیں ہے بلکہ معاملات سے ہے۔ اعتدال اصولی معاملات میں نہیں ہوتا بلکہ اعتدال عملی معاملات میں ہوتا ہے۔ جہاںتک اصول یا عقیدہ کامعاملہ ہے، اس میںہمیشہ معیار (ideal) مطلوب ہوتاہے۔ اور معیار کے معاملہ میں سچائی صرف ایک ہوتی ہے۔ اس میں کوئی متوسط راستہ یا غیر متوسط راستہ نہیں ہوتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اعتدال کی اہمیت عملی ضرورت کی بنا پر ہے۔ اس دنیا میں ہر انسان کو فکر کی آزادی حاصل ہے۔ اس بنا پر انسانوں کے درمیان عملی اختلافات پیدا ہوتےہیں۔ ان اختلافات کو ختم کرنا اور سارے انسانوں کوایک طریقہ کا پابند بنانا ممکن نہیں ہوتا۔ اس بنا پر یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اس طرح کے معاملہ میں اعتدال وتوازن (balance) کا طریقہ اختیارکرو کہ لوگوں کے درمیان ٹکراؤ نہ ہو اور زندگی کا نظام پرامن انداز میں چلتا رہے۔
اس اعتدال کا تعلق عقیدہ سے نہیں ہے بلکہ عمل سے ہے۔ عقیدہ ہمیشہ ابدی اصول پر قائم ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں توسط کا سوال نہیں۔ عمل کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ عمل کا تعلق ظاہری فارم سے ہوتا ہے۔ ظاہری فار م میں حالات کی نسبت سے ایڈجسٹمنٹ کیا جاسکتا ہے تاکہ ٹکراؤ کی صورت پیدا نہ ہو۔