دینِ مبین
ایک طویل حدیثِ رسول میں دین اسلام کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: قد ترکتکم على البیضاء لیلہا کنہارہا (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 43، مسند احمد، حدیث نمبر17142) یعنی میں نے تم کو ایک روشن دین پر چھوڑا ہے، اس کی رات بھی اس کےدن کی طرح ہے۔پھر اسی روایت میں آگے یہ الفاظ ہیں:ومن یعش منکم فسیرى اختلافا کثیرا۔ یعنی تم میں سے جو زندہ رہے گا، وہ امت میں بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا۔
یہاں یہ سوال ہے کہ جب دین صبح کی طرح روشن ہے تو اس میں اختلافات کیسے پیدا ہوجائیں گے۔ اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ دین کے دو پہلو ہیں۔ ایک، اصل دین اور دوسرے، تفصیلاتِ دین۔ دونوں اگرچہ دین کا حصہ ہیں۔ لیکن دونوں کے درمیان نوعیت کے اعتبار سے فرق ہے۔ اصل دین میں توحد مطلوب ہے اور تفصیلاتِ دین میں تعدد۔ اس حقیقت کو ملحوظ رکھا جائے تو اختلاف کی برائی پیدا نہ ہوگی۔ جب اس حقیقت کو بھلادیا جائے تو اس کے بعد امت اختلافِ کثیر میں مبتلا ہوجائے گی۔
امورِ اتقافی میں توحد(یکسانیت) مطلوب ہے اور امورِ اختلافی میں تعدد اور توسع ۔ مگر فقہاء اس راز کو سمجھ نہ سکے ، انھوں نے خود ساختہ طور پر اصولِ ترجیح وضع کیا اور اس کے تحت امورِ اختلافی میں بھی توحد پیدا کرنے کی کوشش کی۔ چوں کہ امورِ اختلافی میں توحد ممکن نہ تھا۔ اس لیے عملاً یہ ہوا کہ امت واحدہ امت متفرقہ میں تبدیل ہوگئی۔
مثلا فرض نمازوں میں رکعات کی تعداد کا تعلق اتفاقی حصہ سے ہےاور ہاتھ کیسے باندھا جائے اس کا تعلق اختلافی حصہ سے۔ مگر اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت میں مسلکی اختلاف واقع ہوا۔ اور اس اختلاف کی بنا پر امت میں غیر ضروری طور پر کئی فرقے بن گیے۔ اس اختلاف نے بڑھتے بڑھتے شدت کی صورت اختیار کرلی۔