ذہنی سانچہ
ہر آدمی کے اندر مختلف حالات کے تحت اس کا ایک مائنڈ سیٹ (mindset)یا ایک ذہنی سانچہ (intellectual mould) بن جاتا ہے۔ آدمی اسی کے مطابق سوچتا ہے، آدمی اسی کے مطابق رائے بناتا ہے۔ حقیقتِ واقعہ خواہ بظاہر کچھ اور ہو، لیکن آدمی کے ذہن میں چیزوں کے بارے میں وہی تصویر بنتی ہے، جو اس کے اپنے ذہنی سانچے کے مطابق ہو۔
انسان کے بارے میںیہ حقیقت قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: قُلْ کُلٌّ یَعْمَلُ عَلَى شَاکِلَتِہِ فَرَبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَ أَہْدَى سَبِیلًا (17:84)یعنی علم الٰہی میں کسی چیز کی نوعیت خواہ کچھ ہو لیکن انسان اپنے خود ساختہ شاکلہ (mindset)کے مطابق چیزوں کے بارے میں رائے قائم کر لیتا ہے۔ اس کمزوری سے وہی شخص بچ سکتا ہے جو اپنے ذہن کو اتنا زیادہ ارتقا یافتہ بنائے کہ وہ چیزوں کو اللہ کی نظر سے دیکھ سکے۔
انسان ایک سماجی مخلوق ہے۔ دنیا میں ہر آدمی ایک سماجی ماحول کے اندر پیدا ہوتا ہے۔اس ماحول میں ہر وقت روزانہ مختلف قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ انسان خواہ چاہے یا نہ چاہے، وہ اپنے ماحول سے اثر قبول کرتا رہتا ہے۔ اس طرح ہر انسان کا کیس ایک متاثر ذہن کا کیس بن جاتا ہے۔ یہ متاثر ذہن دھیرے دھیرے اتنا پختہ ہوجاتا ہے کہ آدمی اسی کو درست سمجھنے لگتا ہے۔
ایسےحالات میں ہر عورت اور مرد کو یہ کرنا ہے کہ وہ مسلسل طور پر اپنا محاسبہ کرتا رہے۔ وہ دریافت کرتا رہے کہ کیا چیز فطری ہے۔ اوروہ کیا چیز ہے جس کو اس کے ذہن نےماحول کےاثر سے قبول کر لیا ہے۔ اسی ذہنی کوشش کا نام محاسبہ (introspection) ہے۔ یہی محاسبہ کا عمل وہ چیز ہے جو کسی انسان کو اس سے بچاتا ہے کہ آدمی کے اندر غلط قسم کا ذہنی سانچہ بن جائے، اور وہ اس غلط سانچہ کے زیرِ اثر زندگی گزارنے لگے۔اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ آدمی اپنا محاسب آپ بن جائے، وہ اپنی نگرانی خود کرنے لگے۔