شباب کا زمانہ

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان سے کچھ باتوں کے بارے میں ضرور سوال کیا جائے گا۔ اس روایت کا ایک حصہ یہ ہے: وعن شبابہ فیم أبلاہ۔ (سنن الترمذی، حدیث نمبر2416)یعنی یہ پوچھا جائے گاکہ اپنی جوانی کا دور اس نے کیسے گزارا۔جوانی کا دور کسی انسان کے لیے اس کی عمر کا سب سے اچھا دور ہے ۔ اس لیے جوانی کے دور کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ سوال ہوگا۔

جوانی کا دور (youth age)کیا ہے۔ وہ صحت کے دور (age of good health) کا دوسرا نام ہے۔ صحت ہے تو سب کچھ ہے اور صحت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ جو آدمی تندرستی سے محروم ہوجائے، وہ گویا ہر چیز سے محروم ہوگیا۔ صحت کا دور کسی انسان کے لیے سب بڑے شکر کا آئٹم ہے۔

ایک ایسی دنیا کا تصور کیجیے جہاں ہر عورت اور ہر مرد جوانی اور صحت سے محروم ہو۔ ایسی دنیا گویا ایک بہت بڑا اسپتال ہوگی۔ ایک ایسا اسپتال جہاں کوئی ڈاکٹر یا کوئی نرس موجود نہ ہو۔ جہاں علاج کی سہولتیں(health facilities)نہ پائی جاتی ہوں۔ جہاں ہر ایک علاج کا ضرورت مند ہو لیکن وہاں کوئی معالج موجود نہ ہو۔ ایسی دنیا ایک ناقابل برداشت مصیبت کی جگہ بن جائے گی۔

جوانی کے دور میں ہر انسان کو بھر پور طاقت حاصل رہتی ہے۔ اس لیے جوانی کے دور میں آدمی کو مسائل کا تجربہ نہیں ہوتا۔ جوانی کا دور گویا بے مسئلہ دور ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے اس قیمتی دور پر آدمی نے خالق کے اس عطیہ کا شکر ادا کیا یا نہیں۔جوانی سے اس نے تکبر (arrogance) کی غذا لی یا تواضع (modesty) کی غذا۔وہ دوسروں کے لیے بے مسئلہ بن کر رہا یا بامسئلہ بن کر رہا۔ اس کے ذریعے دنیا کو خیر ملا یا لوگوں کو اس سے شر کا تجربہ ہوا۔ جوانی کی عمر انسان کے لیے اس کی زندگی کا بہترین دور ہے۔ جوانی کی عمر میں آدمی کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔ جوانی کا دور عظیم شکر کا دور بھی بن سکتا ہے اور عظیم ناشکری کا دور بھی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom