اتھاریٹی صرف ایک
حدیث کی کتابوں میں ایک لمبی روایت آئی ہے، جس کا ایک حصہ یہ ہے:لو کان موسى حیا ما وسعہ إلا اتباعی ۔(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر174) یعنی اگر موسی زندہ ہوتے تو ان کے لیے اس کے سوا کچھ اور جائز نہ ہوتا کہ وہ میری اتباع کریں۔ اس حدیث کو علماء نے عام طور پر فضیلتِ رسول کے معنی میں لیا ہے، مگر یہ درست نہیں۔ فضیلتِ انبیاء کا تصور قرآن و حدیث سے ٹکراتا ہے۔ قرآن میں آیا ہے کہ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِہِ (2:285) یعنی ہم اس کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ یہی بات حدیث میں ان الفاظ میں آئی ہے: لا تفضلوا بین أنبیاء اللہہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر3414) یعنی اللہ کے پیغمبروں کے درمیان ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دو۔
اصل یہ ہے کہ اوپر مذکور حدیث میں شخصی فضیلت کا ذکر نہیں ہے۔ اس میں ایک عام اصول بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اتھاریٹی ہمیشہ ناقابلِ تقسیم ہوتی ہے۔ نظم کا تقاضا ہے کہ اتھاریٹی صرف ایک ہو۔ جہاں بھی اتھاریٹی دو یا دو سے زیادہ ہوگی، نظم (discipline) قائم نہ رہے گا۔ حضرت موسی کے زمانے میں دو پیغمبر تھے، موسی اور ہارون۔ لیکن اتھاریٹی کی حیثیت صرف موسی کی تھی، ہارون کو نہ تھی۔ حضرت ہارون کا کام حضرت موسی کی تصدیق کرنا تھا (28:34) ۔
تفضیلِ انبیاء کا عقیدہ بلاشبہ قرآن اور حدیث میں اجنبی ہے۔ انبیاء کے درمیان ایک فرق ضرور پایا جاتا ہے۔ یہ فرق رول کے اعتبار سے ہے، نہ کہ فضیلت کے اعتبار سے۔ اس پہلو سے ہر پیغمبر نمونہ ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ مختلف پیغمبروں کے حالات کا مطالعہ کرے۔ جس پیغمبر میں اس کو اپنے حالات کے اعتبار سے مطابقت ملے ، اس کو وہ اپنا لے۔ یہ پیروی طریقِ کار (method) کے اعتبار سے ہے۔ جہاں تک عقیدہ اور اصولِ دین کا سوال ہے، تمام پیغمبروں کا عقیدہ اور اصول دین ایک تھا۔