سوال و جواب
سوال
عام تاثر یہ ہے کہ پوری دنیا کی غیر مسلم قومیں مسلمانوں کے درپے ہیں، اور مسلم دنیا سازشوں کے نرغے میں ہے۔کیا یہ صحیح ہے، اور اگر یہ صحیح ہے تو اس کا حل کیا ہے۔ ( ایک کشمیری، سری نگر)
جواب
اس قسم کی سوچ بلاشبہ غلط ہے۔ کیوں کہ وہ فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ موجودہ دنیا کو امتحان کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ اس لیے انسان کو خود خالق نے مکمل آزادی عطا کی ہے۔ اور جب آدمی اپنی آزادی کو استعمال کرے گا تو وہ صرف اپنے انٹرسٹ کو دیکھے گا، وہ دوسرے کے انٹرسٹ کو دیکھ کر اپنا منصوبہ نہیں بنائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک کی آزادی دوسرے کے لیے مسئلہ بن جاتی ہے۔ ایسی حالت میں دوسرے انسان کے لیے صرف یہ چوائس ہے کہ وہ اس قسم کے مسئلے کو چیلنج سمجھے۔ اور دوسرے سے لڑائی یا نفرت کیے بغیر اپنے لیے ترقی کا راستہ نکالے۔
یہ بات قرآن میں ان الفاظ میں کہی گئی ہے: وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ ۔ (3:120) یعنی اگر تم صبر کرو اورتقویٰ کا طریقہ اختیار کرو تو ان کی کوئی سازش تم کو نقصان نہ پہنچا ئے گی۔ اس آیت میں جو رہنمائی دی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر تم کو دوسروں کی طرف سے کوئی مسئلہ پیدا ہو تو اس کو سازش بتاکر احتجاج (protest) نہ کرو۔ بلکہ صورتِ حال کا بے لاگ مطالعہ کرکے مثبت بنیادوں پر اپنی زندگی کی تعمیر کرو۔ زندگی کے مواقع جس طرح ایک شخص کے لیے کھلے ہوئے ہیں، اسی طرح وہ دوسرے شخص کے لیے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ اس لیے کرنے کا اصل کام مواقع کو استعمال کرنا ہے ، نہ کہ دوسرے کے خلاف چیخ و پکار کرنا۔
کسی کو دشمن بتا کر اس کے خلاف چیخ و پکار کرنا، باعتبار نتیجہ صرف اپنی تباہی میں اضافہ کرنا ہے۔ کیوں کہ یہ ملے ہوئے وقت کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔اس دنیا میں کامیابی کا راز صرف ایک ہےاور وہ ہے— حالات کے مطابق درست منصوبہ بندی۔
سوال
دعوۃ ورک اور سوشل ورک میں فرق کیا ہے،کیا انبیاء نے دعوۃ دورک کے ساتھ سوشل ورک بھی کیا ہے؟ (حافظ سید اقبال احمد عمری، عمرآباد، تامل ناڈو)
جواب
سوشل ورک انسانی خدمت کے اعتبار سے ایک اچھا کام ہے۔ لیکن سوشل ورک امتِ مسلمہ کا اصل مشن نہیں ۔ سوشل ورک لوگوں کو مسائلِ دنیا سے بچانے کے لیے ہوتا ہے۔ جب کہ پیغمبر کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو مسائلِ آخرت سے بچایا جائے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت پر غور کیجئے جس کا ترجمہ یہ ہے: وہ بلند درجوں والا، عرش کا مالک ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے وحی بھیجتا ہے، تاکہ وہ ملاقات کے دن سے ڈرائے(40:15) ۔ اس مضمون کی آیتیں قرآن میں کثرت سے آئی ہیں۔ ان کو دیکھنے کے بعد اس میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا کہ امت کا اصل نشانہ دعوت الی اللہ یااُس ہدایت کو لوگوں تک پہنچانا ہے جو اللہ کی طرف سے لوگوں کے لیے اتاری گئی ہے۔(5:67)
دونوں قسم کےکاموں میں جو فرق ہے ، ان میں سے ایک اہم فرق یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کے کام میں داعی کے اندر تعلق باللہ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اپنے عمل کے دوران وہ اللہ کو یاد کرتا ہے، اللہ سے دعائیں کرتا ہے، اللہ سے رہنمائی کا طالب ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، سوشل ورک میں تعلق بالناس کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، ساری توجہ انسانوں کی طرف چلی جاتی ہے۔ دعوت الی اللہ کے کام میں اگر خدا رخی ذہن بنتا ہے تو سوشل ورک میں فطری طور پر انسان رخی ذہن کی پرورش ہوتی ہے۔دعوت الی اللہ کے کام میں اگر فرشتوں کی صحبت حاصل ہوتی ہے تو سوشل ورک میں ساری توجہ کا مرکز انسان بن جاتا ہے۔ دعوت الی اللہ میں مشغول لوگوں کے اندر اگر جنت اور جہنم کا چرچا ہوتا ہے تو سوشل ورک میں مشغول لوگوں کے اندر انسانوں سے متعلق خبروں کا چرچا ہونے لگتا ہے۔دعوت الی اللہ کے کام میں اگر کیفیت (quality) کی اہمیت ہوتی ہے تو سوشل ورک میں ساری اہمیت کمیت (quantity) کی ہوجاتی ہے۔