ارتقاء کا مفروضہ قافلہ کائنات کی معلوم شاہرا ہوں میں اپنا راستہ نہ پاسکا

ڈارون (1809-1882) کو یقین تھا کہ زندگی ایک ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ کیڑے مکوڑے اپنے اعضا میں ترقیاتی تبدیلیاں کرتے کرتے بکری بن گئے اور بکری نے ترقی کر کے زرافہ کی صورت اختیار کرلی ۔ پچھلے سو برس کے دوران یہ ایک مسلّمہ سائنسی عقیدہ بن گیا تھا۔ مگر حالیہ مطالعہ نے اس عقیدہ کو علمی حیثیت سے متزلزل کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر معلوم ہوا ہے کہ زمین کی عمر اس اندازہ سے بہت کم ہے جو ارتقائی طور پر زندگی کی انواع کو وجود میں لانے کے لیے  ضروری ہے۔

 اب علمائے حیاتیات کا قیاس یہ ہو رہا ہے کہ زمین سے باہر کائنات کے کسی مقام پر انسان جیسی تہذیب موجود ہے اور اس نے بالقصد زندگی کا جرثومہ اوپر سے زمین پر بھیجا ہے۔ مگر یہاں بھی ایک رکاوٹ در پیش ہے۔ کائناتی وقت اتنا کافی نہیں کہ اس کے اندر دو تہذیبیں ایک کے بعد ایک ترقی کر سکیں۔ ایک زمین پر ، دوسری کسی اور سیارہ ہیں۔ گویا انسانی علم وہاں پہنچ گیا ہے جہاں اس کے لیے  اس کے سوا چارہ نہیں کہ وہ ایک قادر مطلق کے وجود کو تسلیم کرے ۔

زمین پر زندگی کیسے شروع ہوئی، اس کے بارے میں حال ہی میں ایک چونکا دینے والا نظریہ سامنے آیا ہے۔ اس نظریہ کو پیش کرنے والے دو ممتاز  مالے کیولر بیا لوجسٹ ہیں ۔ ایک، نوبل انعام یافتہ فرانسس کریک crick) francis) دوسرے لولی آرگل(Leslie Orgel)اس نظریہ کے مطابق زمین پر زندگی کا آغاز نہ تو خود بخود ہوا اور نہ اس طرح کہ کچھ ملین سال پہلے ایک ابتدائی مادہ سے ایک جسم حیوانی (organism) بنا اور اس سے تدریجی ارتقا کے ذریعے زندگی کی انواع وجود میں آئیں ۔ بلکہ زندگی ایک ایسے تجربے کا نتیجہ تھی جو کچھ غیر ارضی ہستیوں( Extra-erostrial Beings) کئی جگ پہلے منظم کیا تھا۔

کریک اور آرگل، یہ فرض کرتے ہوئے کہ ہمارے کہکشائی نظام کے دوسرے  سیاروں میں ترقی یافتہ تہذیبیں موجود ہیں، یہ خیال کرتے ہیں کہ اسی قسم کے کسی سیارہ کے باشندوں نے کچھ ہزار ملین سال پہلے طے کیا کہ وہ اس بات کا تجربہ کریں کہ کیا ان کے پڑوسی سیاروں میں زندگی اپنے لیے  نیا ماحول پیدا کر سکتی ہے چنانچہ انھوں نے ہماری کہکشاں کے کچھ سیاروں پر زندگی کے جراثیم ڈالے اسی قدیم تجربہ کا نتیجہ ہماری موجودتہذیب ہے ۔

انیسویں صدی میں ڈارون کے نظریہ کے بعد اہل مذاہب کا مخصوص تخلیق کا نظر یہ علمائےِ سائنس کے درمیان ختم ہو گیا تھا۔ اس کے بعد سائنس داں، اس سوال کا جواب معلوم کرنے میں سرگرداں تھے کہ زندگی شروع کس طرح ہوئی ۔ اس بحث کے دوران سویڈن کے کمیسٹ  ارے نیس (Arrhenius ) نے انیسویں صدی کے آخر میں یہ تخیل پیش کیا کہ کچھ بیکٹیریائی اجزاءجو کسی ایسے سیارہ سے جہاں پہلے سے زندگی موجود تھی ، زمین پر آگئے اور پھر تدریجی ا رتقاکے ذریعہ اقسام حیات کو وجود میں لانے کا سبب بنے ۔ ارے نیس نےاس طریق عمل کو ”پینس پر میا“ کا نام دیا ۔ اس نظریہ کو اس تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ بیکٹیریا بین سیاراتی سفر میں خطر ناک ریڈایشن کے مقابلہ میں زندہ نہیں سکتا ، لارڈ کلوین (Kelvin) نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا " ہو سکتا ہے کہ بیکٹیریا کسی شہابئے سےچپک گیا ہو اور اس پر سوار ہو کر زمین پر آیا ہو۔“

اگر چہ یہ ممکن ہے کہ بیکٹیریائی اجزاء شہابئے پر سوار ہو کر بین سیاراتی سفر کریں، تاہم پینس پر میا کا نظریہ کبھی سائنس دانوں کے لیے  قابل قبول نہ ہو سکا تھا۔ اس نظریہ کا اساسی مقدمہ یہ ہے کہ زندگی اس سے پہلے کہیں موجود تھی، جب کہ اس نظریہ میں اس کا جواب نہیں ملتا کہ دوسرے سیارہ پر زندگی کیسے وجود میں آئی۔

 کر یک اور آرگل، یہ مانتے ہوئے کہ بیکٹیریائی اجزاء کی اتفاقی ہجرت نا ممکن ہے ، کہتے ہیں کہ اس وقت یہ قابل قیاس ہو جاتا ہے جب کہ یہ  مانا جائے کہ با لقصدکسی نے زندگی کے جراثیم کو زمین پر بھیجا ہو۔ وہ اس عمل کو معین پنیسپرمیا                          ( directed panspermia)   کا نام دیتے ہیں۔

اس نئے نظریہ کے ثبوت میں کریک اور آرگل دو حیا تیاتی مسئلوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ان میں سے ایک جنیٹک کوڈ ہے۔ہر ایک مو جودہ زمانہ میں تسلیم کرتا ہےکہ زمین پر زندگی کی تمام قسموں کے لیے صرف ایک کوڈ ہے۔

زندہ جسم اگر محض طبیعی اور کیمیا دی قوتوں کے باہمی عمل سے بن گیا ہو تو اس کی ترکیب میں عناصر کا وہی تناسب پایا جانا چاہیے جو ہماری دنیا کے اندر موجود ہے۔ مگر زندہ جسم میں زمینی اجزاء کا انعکاس نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ وہ ایک ایسی چیز ہے جس کو کسی بنانے والے نے بالقصدایک خاص شکل میں بنایا ہے، نہ کہ وہ محض اندھے عمل کا اتفاقی نتیجہ ہے۔

کوئی حیا تیاتی عالم اس عالمگیریت کی توجیہہ نہیں کر سکتا  کہ سب کے لیے  ایک ہی کوڈ کیوں ہے۔آرگل اور کریک کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حیات کا ایک ہی بیج تھا ،جس سے زندگی شروع ہوئی ،اس لیے  فطری طور پر اس بیج کا جینٹک کوڈ جوکئی جگ پہلے کسی دوسرے سیارے کے باشندوں نے زمین پر بھیجا تھا اپنا اعادہ ایک ہی جینٹک کو ڈ کی شکل میں کرتارہا۔

دوسری چیز مولب ڈینم (molybdenum) نامی دھات کا وہ رول ہے جو حیاتیاتی نظام میں پایا جاتا ہے۔ اکثر انزائم سسٹم اپنی کارکردگی کے لیے  اس کے اورصرف اس کے محتاج ہوتے ہیں ۔ مولب ڈینیم اتنا غیر معمولی طور پر اہم ہونے کے باوجود زمین میں پائی جانے والی کل دھاتوں کا صرف 402 - فی صد (دس ہزار میں دو) ہے۔ دوسری طرف بعض زیادہ مقدار میں پائی جانے والی دھاتیں مثلاً کر دمیم اور نکل ، جوکہ اپنی خاصیت میں مولب ڈنیم سے بہت مشابہ ہوتی ہیں اور زمینی دھاتوں کا 2فی صد اور 3ء16 فی  صد ہیں، حیاتیاتی نظام میں بالکل ہی کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ کریک اور آر گل کہتے ہیں کہ زمین کی جو کیمیائی ترکیب ہے وہ زمین پر وجود میں آنے والی زندگیوں کی بناوٹ میں منعکس ہونی چاہیے تھی۔ اور چونکہ ایسا نہیں ہے اس لیے  ماننا پڑے گا کہ زندگی کچھ مین سال پہلے زمین پر باہر سے بھیجی گئی۔

اگر معّین پینس پر میا کا نظریہ مان لیا جائے تو اس سے دو سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ (1) کیا کائناتی وقت اتنا کافی ہے کہ اس کے اندر دو تہذیبیں ایک کے بعدایک ترقی کر سکیں، ایک زمین پر اور دوسری کسی اور سیارہ میں (2) کیا حیاتیاتی جرثومہ بین سیارتی فاصلوں کو عبور کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ زندہ حالت میں پہنچایا جاسکتا ہے ۔

کر یک اور آرگل کا خیال ہے کہ ان کا نظریہ قبولیت حاصل کرلے گا، اگر یہ ثابت ہو سکے کہ وہ عناصر جو زمینی زندگی کے اجزائے ترکیبی ہیں، وہ وہی ہیں جو بعض قسم کے ستاروں میں، ان کے قیاس کے مطابق کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom