30سال پہلے وہ کہتے تھے کہ ہمارے کارخانوں کی چمپنیاں جب تک دھواں اگل رہی ہیں، ہمارے لیے کوئی مسئلہ مسئلہ نہیں ۔ مگر آج یہ بڑھتا ہوا دھواں ان کی زندگی کے لیے خطرہ بن گیا ہے ۔
ڈولئس برگ ( Duisburg)مغربی جرمنی کا ایک شہر ہے جو ملک کی لوہے کی صنعت کا مرکز ہے۔ مغربی جرمنی کی لوہے کی پیدا وار کا ایک تہائی حصہ یہیں تیار ہوتا ہے ۔
دوسری جنگ عظیم کے زمانے تک یہاں کے لوگ کہا کرتے تھے ہماری چمنیاں جب تک دھواں اگل رہی ہیں ہمارے لیے کوئی مسئلہ مسئلہ نہیں ۔ مگر آج اس علاقہ میں پیسہ کی بہتات کے باوجود "دھواں "عظیم ترین مسئلہ بن گیا ہے۔ کیونکہ اس نے فضائی "کثافت "کا خطر ہ پیدا کر دیا ہے ۔ ڈوئس برگ مغربی جرمنی کی دوندیوں کے مقام اتصال پر واقع ہے اس لیے وہ ایک آئیڈیل صنعتی مقام ہے۔ کیونکہ دریاؤں کی وجہ سے نقل و حمل نہایت سستی قیمتوں پر ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر کو زبر دست ترقی حاصل ہوئی۔ یہاں چمنیوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی رہی ۔ مگر دھویں کے اضافہ نے یہاں کی پوری فضا کو کثیف بنا دیا۔ یہاں لوہے کے علاوہ تانبا، کو ئلہ، کیمیکلس اور ہیوی انجینیرنگ کی صنعتیں قائم ہیں ۔بیشتر صنعتیں دریائے رینی (Rhine)کے کنارے واقع ہیں جو شہر کے مغربی کنارے بہتا ہے۔
مغربی جرمنی کے سامنے اب یہ سوال ہے کہ کم ترقی پر راضی رہ کر اپنی زندگی کو بچائیں یا زیادہ مادی ترقی کی قیمت میں اپنے آپ کو قبل از وقت موت کے منہ میں پہنچا دیں۔ ایک افسر نے کہا:
Do we want to live longer with a Volkswagen or die earlier with a Mercedes.
ہم ووکس ویگن پر قانع رہ کر زیادہ لمبی زندگی حاصل کرنا پسند کریں گے یا مرسیڈیز حاصل کر کے پہلے ہی مر جا ئیں گے
یورپ کی مادی ترقی آج خود اپنے ہی ہاتھوں شکست کھا رہی ہے۔
ڈاکٹر رینی ڈوبوز (Rene Dubos)راک فلر یونیورسٹی نیو یارک میں انوائر نمنٹل بایو میڈیسن(Environmental Biomedicine) کے صدر ہیں انھوں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے:
So human an animal
ڈاکٹر موصوف نے امریکی رسالہ لائف ) 24جولائی1970) کے ایک مضمون میں دنیا کو تنبیہہ کی ہے کہ وہ تیزی سے ایک نئے خطرہ کی طرف جارہی ہے۔ وہ خطرہ یہ کہ نئے حالات انسان کی بہت سی خصوصیات اس سے چھین رہے ہیں۔ اگر اس نے زندگی کی نئی اہمیت اپنے اندر نہ پیدا کی تو مستقبل میں وہ کمتر درجہ کا انسان بن کر جائے گا۔
یہ خطرہ جو حیاتیاتی طبیعیات کی دنیا میں انسان کے لیے موجود ہے، وہی خطرہ اس کے لیے اخلاقی دنیا میں پیدا ہو گیا ہے ۔ جدید دنیا میں انسان اپنے اخلاقی اوصاف کو تیزی سے کھوتا جا رہا ہے ۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو بالآخر وہ ایک قسم کا حیوان بن کر رہ جائے گا اور انسانی آبادیوں کی حیثیت ایک نئے قسم کے جنگل سے زیادہ نہ ہوگی۔
"میں یہ سنتے سنتے اکتا گیا ہوں"، وہ لکھتے ہیں کہ انسان فنا (Extinction) کے راستے پر جارہا مگر میرا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں انسان ایسے خطرات سے دوچار ہے جو فنا سے بھی زیادہ ہولناک ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری ٹکنالوجی اور ہماری بے قید بڑھتی ہوئی آبادیاں نیو یارک اور ٹوکیو جیسے شہروں کو غلاظت (dirt) آلودگی (pollution) اور شورغل(noice) سے بھر رہی ہیں ۔اور یہ سب سے بڑی ٹریجڈی ہے۔
جنگلی جانور چڑیا خانوں میں رہ سکتے ہیں ۔ اس قیمت پر کہ وہ اپنی بہت سی فطری خصوصیات کھو دیں اسی طرح انسان بھی اپنی تکنکی تہذیب کے بنائے ہوئے کثیف کٹہرہ میں رہ سکتا ہے۔ مگر ایسی حالت میں تم اپنی انسانیت کی بہت سی چیزیں قربان کر دیں گے ۔
ان کے نزدیک یہ خطرہ انسان کی صلاحیت ِمطابقت(Adaptability) میں ہے ۔ فرانسیسی عالمِ حیاتیات لوئی پاسچر نے1864میں تجربہ سے ثابت کیا تھا کہ انسان کے ایک مجموعہ کو اگر ایک ایسے کمرہ میں بھر دیا جائے جس میں ہوا کا گزر کم ہو تو وہ دھیر دھیرے اس سے مطابقت کر لیتے ہیں حتٰی کہ اس احساس سے بھی خالی ہو جاتے ہیں کہ وہ کمتر ہوا میں سانس لے رہے ہیں اگر چہ اس مطابقت میں وہ اپنی صحت کا بڑا حصہ کھو دیں گے۔
پاسچر نے ایک چڑیا کو ایک ایسے پنجرے میں رہنے کا عادی بنایا جس میں ہوا بہت کم ملتی تھی ۔ وہ دھیرے دھیرے اس کی عادی ہوگئی۔ وہ زندہ تھی اگر چہ ایک غیر متحرک پرندہ کے طور پر۔ اس کے برعکس پاسچر نے اس پنجرہ میں اچانک ایک اور پرندہ ڈالا تو وہ فوراً مرگیا۔
مشینی تمدن نے انسان کے لیے جو نئے نئے مسائل پیدا کیے ہیں ،ان سے ایک مسئلہ "شور غل"بھی ہے ۔تجربے سے معلوم ہوا کہ مسلسل شور کان کی طبیعی ساخت کو نقصان پہنچا تا ہے ۔اس سے دماغی بیماریاں پیدا ہو تی ہیں اور انسان کی کام کرنے کی طاقت گھٹ جاتی ہے ۔
ڈاکٹر موصوف کے نزدیک کثافت((pollution کا اصلًا یہ مسئلہ نہیں ہے کہ انسان مر جائے گا بلکہ یہ کہ وہ انسانی اوصاف کھو دے گا۔ انسان کی خطرناک حالات سے مطابقت پیدا کر لینے کی صلاحیت اس کے لیے اصل مسئلہ ہے ۔ اب انسان یا تو زندگی کی خصوصیات کو ترقی دے گا یا نئے تمدنی حالات میں وہ انسان سے کمتر درجہ کی ایک چیز ہو کر رہ جائے گا:
Man must improve the quality of life, or he may become something less than human.
ڈاکٹر چانسی لیک (طّبی مرکز کیلی فورنیا یونیورسٹی )نے شور و غل کے مسئلہ کا تفصیلی جائزہ لیا ہے، وہ بتاتے ہیں کہ شور و غل صرف کان ہی کو تکلیف نہیں دیتا بلکہ اس کی وجہ سے پورے جسم کا توازن درہم برہم ہوجاتا آواز کی کمی بیشی کو ناپنے کے لیے اس کی ایک اکائی مقرر کی گئی ہے جس کو ڈیسیبل کہتے ہیں۔ اگر بیس فیٹ کے فاصلے پر ایک ٹرک تیزی سے گزر جائے تو اس سے نوّے ڈیسیبلس آواز پیدا ہوگی ۔ پانچ سو فیٹ کے فاصلے پر ریل گاڑی سیٹی بجائے تو اس سے بھی نوّے ڈیسیبلس آواز ہوگی ۔ زیر زمین ریل گاڑی اگر پچاس فیٹ کے فاصلے پر گزر جائے تو اس سے جو آواز آئے گی وہ پچانوے ڈیسیبلس ہوگی۔ تعمیراتی کاموں کے سلسلے میں جہاں مختلف مشینیں استعمال کی جاتی ہیں وہاں تقریباً ایک سو دس ڈیسیبلس کے برابر شور ہوگا۔ جیٹ ہوائی جہاز جب پانچ سو فیٹ کے فاصلے پر اڑ تا ہے تو ایک سو پندرہ ڈیسیلبس کے برابر شور ہوتا ہے۔
شور وغل کا اثر یہ ہوتا ہے کہ جسم کے اندر پانی اور نمک کا توازن درہم بر ہم ہو جاتا ہے۔ دیر تک اگر شور ہوتا رہے تو اس سے مزاج میں چڑ چڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔