آپس کا لڑائی جھگڑا آسمان سے آئی ہوئی مدد کو دوبارہ لوٹا دیتا ہے
اسلام میں اتحاد و اتفاق کو بے حد اہمیت دی گئی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ نازک پہلو یہ ہے کہ وہ مسلم گروہ خدا کی نصرت سے محروم ہو جاتا ہے جس کے افرادآ پس میں ایک دوسرے سے جھگڑنے لگیں ۔ حدیث میں ہے کہ لیلتہ القدر کے تعین کا علم صرف اس لیے اٹھا لیا گیا کہ مدینہ میں دو مسلمان باہم لڑ پڑے تھے:
عن عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ قَالَ:خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُخْبِرَ النَّاسَ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَتَلَاحَى رَجُلَانِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (خَرَجْتُ لِأُخْبِرَكُمْ، فَتَلَاحَى فُلَانٌ وَفُلَانٌ، وَإِنَّهَا رُفِعَتْ۔(صحيح البخاري،حدیث نمبر5702)
عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روزنکلے کہ ہم کو شب قدر کے بارے میں بتادیں کہ وہ کس روز ہے۔ اس وقت دو مسلمان آپس میں( ایک قرض کے بارے میں )لڑ پڑے۔ آپ نے فرمایا ، میں اس لیے نکلا تھا کہ تم کو شب قدر کی خبر دے دوں ۔ مگر فلاں اور فلاں آپس میں لڑپڑے میں اس کا علم اٹھا لیا گیا۔
ابن کثیر لکھتے ہیں: " اس حدیث سے معلوم ہوتا ہےکہ اسلام لڑائی جھگڑوں کو کس قدر برا سمجھتا ہے یہاں تک کہ اس کی وجہ سے بڑی بڑی برکتیں اٹھالی جاتی ہیں ۔“