وہ سچائی کے ایک معلم کا انتظار کر رہے تھے
مگر جب سچائی کا معلم آیا تو انھوں نے اس کو نہ ماننے کے لیے طرح طرح کی دلیلیں تلاش کر لیں
1947کا واقعہ ہے۔ ایک بدوی قبیلہ کےکچھ افراد شرق اردن کے علاقہ سے فلسطین کی طرف جارہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس کچھ غیر قانونی اشیاء تھیں، اس لیے انھوں نے عام گزرگاہ کو چھوڑ کر پہاڑی راستہ سے فلسطین میں داخل ہونا چاہا۔ اس سفر میں وہ بحر مردار کے شمال مغربی کنارے پر پہنچ گئے جس کو وادی قمران کہا جاتا ہے ۔یہاں وہ کچھ دیر آرام لینے کے لیے رکے ۔انھیں قریب کی پہاڑی میں ایک کھوہ نظر آیا ان میں سے بعض افراد کھوہ کے اندر گھسے ۔ حیرت انگیز طور پر انھوں نے پایا کہ کھوہ کے اندر کچھ مٹی کے برتن رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ان کو نکال کرباہر لائے ۔وہ سمجھتے تھے کہ ان کے اندر شاید قدیم زمانے کے سکے ہوں گے ۔مگر ان کے اندر سکوں سے بھی زیادہ قیمتی چیز تھی ۔یہ با ئبل کے ابواب تھے جو قدیم طرز کے طومار میں لکھے ہوئےتھے اور ان کو حفا ظت کی غرض سے ان بر تنوں میں بند کر دیا گیا تھا ۔
بدوؤں نے اولاً اس کو فلسطین کے ایک مسلم شیخ کے سامنے پیش کیا۔ اس نے سمجھا کہ یہ سریانی زبان کا کوئی مخطوطہ ہے۔ اس کے بعد وہ لوگ کئی آدمیوں کے پاس ہوتے ہوئے یروشلم کے ایک یہودی کے پاس پہنچے ۔ یہودی نے دیکھتے ہی سمجھ لیا کہ یہ عبرانی زبان میں ہے اور اس کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اس کے کچھ اجزاء کو خرید لیا۔ اس وقت سے اب تک ان کے بارے میں علماء کے درمیان زبر دست بحث و تحقیق جاری رہی ہے۔
گول لپیٹے ہوئے چمڑے کے مسودات جو برتن کے اندر رکھے ہوئے ملے ہیں ۔
یہ کام تمام تر یہودی اور مسیحی علماء نے کیا ہے مسلمانوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ متعدد ہاتھوں میں گردش کرنے کے بعد اب یہ تاریخی ذخیرہ یروشلم میں اسرائیل کے قبضہ میں ہے۔
چمڑے کے یہ طومار تعداد میں گیارہ ہیں جن میں کل سات کتابیں لکھی ہوئی ہیں ۔ ان کی زبان عبرانی ہے۔ ان میں سے اکثر کتا بیں مثلاًیسعیاہ ،حبقوق وغیرہ موجودہ بائبل میں شامل ہیں جو دسویں صدی عیسوی میں مرتب کی گئی تھی ۔دونوں کے متن میں بنیادی یکسانیت کے باوجود مکمل یکسانیت نہیں ہے ۔اندازہ کیا جاتا ہے کہ قدیم زمانے کے کچھ یہودی علماء نے بائبل کے متن کو محفوظ کرنے کے لیے یہ تدبیر اختیار کی تھی ۔سائنسی طریقوں سے ان کی عمر کا جو اندازہ کیا گیا ہے اس کے مطابق علماء نے ان کا زمانہ70۔67 ء مقرر کیا ہے ۔ یہ اتنے نازک ہو چکے ہیں کہ جب ان کو کھولنے کی کوشیش کی گئی تو ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔
یہ طومار جن کو "ڈیڈ سی اسکرول " کہا جاتا ہے،ثابت کرتے ہیں کہ پہلی صدی عیسوی کے یہودی ایک آنے والے نبی کے منتظر تھے ۔ ان کا عقیدہ تھا کہ موسیٰ کے بعد دو خاص نبی اور آنے والے ہیں اور ایک" مسیح" دوسرا "سچائی کا معلم"۔مسیح آخری دور میں آنے والے پیغمبر کی راہ ہموار کرے گا ، اور" سچائی کا معلم " بد روحوں کو ختم کرے گا،وہ آخری دنوں میں آئے گا ۔"حبقو ق نامی کتاب کے مسودے میں آنے والے "سچائی کے معلم "کے سات براہ راست حوالے شمار کیے گئے ہیں ۔
ڈیڈ سی اسکرول پر جن علماء نے تحقیقات کی ہیں ان کے لیے اب تک سب سے زیادہ مشکل مسئلہ یہ رہا ہے کہ "سچائی کا معلم"سے مراد کون ہے ۔ اس سلسلے میں مختلف نظریات قائم کیے گئے ہیں مگر ابھی تک علماء کا کسی ایک رائے پر اتفاق نہ ہو سکا،ان کےنزدیک مسیح کو اس کا مصداق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ مسودات صاف لفظوں میں"سچائی کے معلم "کو مسیح سے الگ ایک شخصیت قرار دے رہے ہیں ، دوسری کوئی مذہبی شخصیت پچھلے دو ہزار برس کے اندر، انھیں نہیں ملتی جس پر وہ عظیم اوصاف چسپاں ہوتے ہوں جو سچائی کا معلم کے لیے مسودات میں بتائے گئے ہیں۔ ان کے مطابق ، آنے والا سچائی کا معلم دنیا سے بدروحوں کو ختم کرے گا، وہ خدا کی شریعت کو ہمیشہ کے لیے بگاڑ سے محفوظ کر دے گا ، وہ خدا کی ابدی سچائی کا اظہار کرے گا اس کا جلال قیامت تک ختم نہ ہوگا، وغیرہ ۔ یہ الفاظ جس شخصیت پر چسپاں ہوتے ہیں، وہ بلاشبہ وہی ہے جس کو کارلائل نے پیغمبروں کا "ہیرو"قرار دیا ہے ، مگر انھوں نے پہلے سے فرض کر لیا ہے کہ یہ شخصیت بہر حال اس ذیل میں نہیں آتی ۔
واضح ہو کہ عہد نامہ قدیم کی اکثر کتابیں آٹھویں اور تیسری صدی قبل مسیح کے درمیان قلم بند کی گئیں۔ مگر ان تمام کتابوں کے اصل مسودات ضائع ہو چکے ہیں۔
ڈیڈسی اسکرول“ کی ایک اہمیت، علماء کے قیاس کے مطابق، یہ ہے کہ شایدان میں سے بعض متعلقہ کتاب کا اصل ابتدائی مسودہ ہو۔
تاریخی طور پر اس سوال کا جواب ممکن نہیں کہ حضرت سلیمان کے بعد کے دور میں جب اسرائیل اور یہوداہ کی سلطنتیں برباد ہوئیں تو بائبل کے اصل مسودات کس طرح محفوظ رہے اور ان کی موجودہ نقلیں کس حد تک اصل کے مطابق ہیں ۔ تیسری صدی قبل مسیح کے بعد اکثر یہودی فلسطین سے منتشر ہو کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے۔ ان کی نسلیں عبرانی زبان بھول گئیں۔ دوسری صدی قبل مسیح میں بائبل کا یونانی ترجمہ تیار کیا گیا۔ اس ترجمہ کے بھی اب صرف نقل در نقل نسخے دنیا میں پائے جاتے ہیں۔
بعد کے دور میں بائیل کے جوقلمی نسخے رائج ہوئے ان میں بہت اختلافات تھے۔ دسویں صدی عیسوی میں کچھ یہودی علما ءنے ان مختلف نسخوں کو سامنے رکھ کر ایک مستند متن تیار کیا۔ اسی کا نام آج عہد نامہ قدیم ہے۔