وہ ابھی تک دستکاری کے دور میں ہیں

 وہ لوگ جو اپنے کو اردو کا امین اور وارث سمجھتے ہیں، ان کے اندر ایک عجیب و غریب خصوصیت ہے جس میں شاید ساری دنیا میں کوئی ان کا ثانی نہیں۔ وہ کسی گروہ کی برائیوں کو لے لیتے ہیں اور اچھائیوں کو چھوڑ دیتے ہیں ۔

 انھوں نے انگریزوں سے ان کی تہذیب لی مگران کی سائنس نہ لی۔نو آبادیاتی ماحول  سے سیاست لی مگر تعمیر نہ لی۔ عیسائیوں سے مناظرہ بازی لی مگر مشنری اسپرٹ نہ لی۔ وغیرہ وغیرہ

 اسی سلسلے کی ایک مثال یہ ہے کہ اردو کی قوم نے ایرانیوں سے ادبی لفاظی اور شاعرانہ تخئیل تو اتنی زیادہ لی کہ پوری زبان اس کے سانچے میں ڈھل گئی مگر جدید دور میں جب ایرانیوں نے کتابت کے طریقے کو چھوڑ دیا اور اس کو آرٹ کے لیے  خاص کرتے ہوئے اپنی عام چھپائی کے لیے  عربی ٹائپ کو معمولی ترمیم کے ساتھ اختیار کر لیا تو اردو  والوں نے اس دوسرے معاملہ میں ایران کی نقل نہ کی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اردو آج دنیا کی تمام زبانوں میں سب سے زیادہ پس ماندہ زبان ہے ۔ عربی، فارسی اور ہندی جو اردو کی جّدی زبانیں ہیں ٹائپ اختیار کرکے ترقی کر رہی ہیں، اور اردو مشینی عہد میں بھی اب تک دستکاری کے دور سے گزر رہی ہے۔ اردو کی ترقی میں اس کے مزاج پر ادبیت کے غلبہ کے بعد دوسری سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ ابھی تک اس میں ٹائپ کا رواج نہ ہو سکا ۔ ٹائپ کا مطلب کتابت کو مشینی ضرب دینا ہے۔ ایک ماہر کاتب کے عمل کو جب ٹائپ میں ڈھال دیا جائے تو اتنے ہی وقت میں لاکھوں صفحے اسی خوش نمائی کے ساتھ کمپوز کئے جاسکتے میں جتنی دیر میں کا تب نے ایک صفحہ لکھا تھا۔

خوش قسمتی سے اردو کے لیے  ہم کو نیا ٹائپ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں۔ عربی اور فارسی کا ٹائپ معمولی تبدیلی کے بعد اردو میں نہایت کامیابی کے ساتھ استعمال ہو سکتا ہے۔ عربی ٹائپ کو اردو کے لیے  اختیار کرنے کا مزید                                                                                                      

جو لوگ زندگی کی دوڑ میں پیچھے ہو جائیں، وہ صرف تاریخ کا موضوع بن کر رہ جاتے ہیں جس طرح دو سو برس پہلے کا یہ ہینڈ پر یسں اب صرف میوزیم میں دکھائی دیتا ہے۔

ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ قرآن کا رسم الخط اور ہماری مادری زبان کا رسم الخط دونوں ایک ہو جاتے ہیں مگر یہ دو طرفہ خوش قسمتی بھی ہمارے لیے  کسی اقدام کا محرک نہ بن سکی ۔

الرسالہ کے پروگراموں کا ایک جزء یہ بھی ہے کہ دہلی یا کسی دوسرے مرکزی مقام پر عربی ٹائپ کا پریس قائم کیا جائے ۔ ہندوستان میں ایک اچھے عربی پریس کی شدید ضرورت ہے۔ یہ پریس نہ صرف عربی کتابوں کی طباعت کی ضرورت کو پورا کرے گا۔ بلکہ الرسالہ اور دوسری اردو کتابوں کو ٹائپ میں چھاپنے کا اہتمام بھی کرے گا۔ ہماری تمنا ہے کہ وہ دن آئے جب ادارہ الرسالہ کی ساری چیزیں ٹائپ میں چھپ رہی ہوں۔ ہمارا یہ اقدام شاید اس دور کا آغاز بن جائے جب کہ اردو زبان کا تمام کام ٹائپ میں ہونے لگے، دوسری لسانی قومیتوں کی طرح ہم دستکاری کے دور سے نکل کر سائنس کے دور میں پہنچ چکے ہوں ۔

اردو قوم کی ایک عجیب و غریب خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ خرید کر پڑھنا نہیں جانتی۔ ایک "رسالہ "اگر کسی کو پسند آجائے تو اگلے دن ایڈیٹر کو ایک خط ملے گا جس میں رسالہ کی تعریف کے بعد فرمائش ہوگی کہ اس کے "ادارہ" کو رسالہ اعزازی طور پر جاری کر دیا جائے۔ اس کی پسندیدگی اس کے لیے  اس بات کا محرک نہیں بنے گی کہ وہ خود با قاعدہ خریدار بنے اور دوسروں کو اس کا خریدار بنائے ۔ وہ اعزازی پرچہ کے حصول کے لیے  ایک خط لکھ دینا کافی سمجھتا ہے اور بس۔

اردو کی ترقی میں یہ دوسرا عامل بھی اتنی ہی بڑی رکاوٹ ہے جتنا کہ پہلا عامل ۔

 ملّی تعمیر کا کام سب سے پہلے ملت کے افراد میں شعور پیدا کرنے کا کام ہے اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ الرسالہ کو ایک ایک گھر میں پہنچایا جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom