یہ کام نہیں ، کام کے مواقع کو برباد کرنا ہے
موجودہ دور کے مسلم مصلحین سے ایک بڑی اجتہادی غلطی یہ ہوئی ہے کہ انھوں نے سمجھا کہ جن ملکوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور جہاں ان کا سیاسی اقتدار قائم ہے، وہاں وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ " قانون ِاسلامی کے نفاذ کے مطالبہ سے اپنی مہم کا آغاز کر سکیں، یہ ایک اندوہناک قسم کا غلط اندازہ تھا جس سے عملاً اس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا کہ وہ اپنے ملکوں میں حزب مخالف کا پارٹ ادا کر کے ختم ہو گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم اقلیت کے ملکوں میں جومسئلہ مقامی غیر مسلم اکثریت کی طرف سے ہے، وہی مسلم اکثریت کے ممالک میں عالمی حالات کی جانب سے ہے۔ مزید یہ کہ مسلم ملکوں کے تمام حکومتی شعبوں پر چونکہ وہ لوگ قابض ہیں جن کی تعلیم مغربی طرز کے اداروں میں ہوئی ہے کیونکہ وہی جدید دور کی ایک ریاست چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس لیے مسلم ملکوں کا بر سر اقتدار طبقہ بھی، اسلام سے طبعی ہمدردی رکھنے کے باوجود، مزاجاً ، اس حد تک جانے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ وہ اپنے یہاں خالص مذہبی ریاست کے قیام کا اعلان کر دے، مصر، پاکستان، انڈونیشیا وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ ان ملکوں میں موجودہ صدی کے وسط میں جو اسلامی تحریکیں اٹھیں، وہ اپنی ساری مقبولیت اور ترقی کے باوجود، اسلامی قانون کے نفاذ میں تو کامیاب نہیں ہوئیں، البتہ مسلم ملک ہونے کی وجہ سے وہاں ان کو اسلامی دعوت کے کام کو موثر طور پر چلانے کے لیے جو خصوصی مواقع حاصل تھے وہ بھی اختلافی اور احتجاجی سیاست کے نتیجہ میں برباد ہو گئے۔ قاضی ابو یوسف (798) اور شیخ احمد سرہندی (1625۔1564) نے بالترتیب عباسی خلیفہ ہارون الرشید اور مغل شہنشاہ جہاں گیر سے مل کر جو اسلامی خدمات انجام دیں، اگر موجودہ زمانہ کے مصلحین نے بھی اس ڈھنگ پر کام کیا ہوتا تو اب تک اظہار دین اور غلبۂ اسلام کا وہ کام انجام پا چکا ہوتا جس کے لیے ابھی ہم صرف غور و فکر کر رہے ہیں ۔