اس کا محرک دنیا داری ہے نہ کہ دین داری

"مولوی صاحب" ایک صاحب نے تیز وتند لہجے میں کہا " آپ لوگ اپنی دینی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں بالکل ناکام ثابت ہوئے ہیں ۔"

"کیوں"

"آپ لوگ اب تک عوام کو یہ نہ بتا سکے کہ نَس بندی جائز ہے یا نا جائز۔ کوئی مولوی کہتا ہے جائز ہے، کوئی کہتا ہے نا جائز ہے ۔"

آج کل اکثر اس قسم کی باتیں سننے میں آتی ہیں۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو زندگی کے معاملات میں جائز اور نا جائز جاننے کی بہت زیادہ فکر ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس معاملہ میں انھیں اسلام کا ٹھیک ٹھیک حکم معلوم ہو جائے تاکہ اس پر وہ صدق دل کے ساتھ عمل شروع کر دیں۔

واقعات بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ اس سےپہلے بے شمار امور میں علماء نے متفقہ طور پر صاف صاف فتوے دیے ہیں۔ مثلاً یہ کہ صاحب نصاب کے لیے  اپنے مال سے ہر سال زکوٰۃ نکالنا فرض ہے ۔ اگر ایک شخص صاحب نصاب ہوتے ہوئے زکوۃ نہیں نکالتا تو اس کا سارا مال اس کے لیے  حرام ہے تاوقتیکہ وہ اس کی باقاعد زکوۃ نہ نکالے۔ کیا اس مسئلہ کو بیان کرنے کے بعد سارے مسلمان اپنے اموال سے باقاعدہ زکوۃ نکالنے لگے ۔

علما٫ نے بار بار شریعت کا یہ حکم مسلمانوں کو بتایا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے  دوسرے مسلمان کی جان، مال اور آبرو حرام ہے۔ کیا اس کے بعد ایسا ہوا کہ ہرمسلمان اپنے دوسرے بھائی کی ان چیزوں کو خنزیر کی طرح حرام سمجھ کر اس سے بچنے لگا۔ علماء نے کتنی ہی بار اپنی تقریر وں اور تحریروں میں بتایا ہے کہ " استمداد" صرف اللہ کے لیے ہے ۔ غیر اللہ کو پکارنا یا اس سے مدد چاہنا مطلق حرام ہے۔ کیا اس کے بعد سارے مسلمان غیراللہ س ےاستعانت چھوڑ کہ صرف اللہ سے امیدوار بن کر اس سے لپٹ گئے۔

 اس طرح کی بے شمار مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ علماء کے کھلے کھلے فتاوی کے باوجو دلوگوں نے شریعت کے علم کی کوئی پروا نہیں کی اور ان کی زندگی کی گاڑی بدستور اپنی ڈگر پرچلتی رہی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ نس بندی کے معاملے میں لوگ اتنا زیادہ بے تاب ہیں کہ شریعت ان کی رہنمائی کرے۔

اس کی وجہ لوگوں کی دنیا پرستی ہے نہ کہ آخرت پسندی۔ در اصل لوگوں کی صاحب اولاد ہونے کی تڑپ نے انھیں اس معاملہ میں اتنا پر جوش بنا دیا ہے نہ کہ صاحب شریعت ہونے کی تڑپ نے۔ ایسے معاملات جن میں وہ خود اپنے دنیا پرستانہ ذہن کوئی اہمیت نہیں دیتا، ان میں انھیں شریعت کا حکم جاننے کی بھی ضرورت نہیں۔

ایک مثال لیجئے ، آزادی کے بعد حکومت نے فیصلہ کیا کہ سرکاری تعلیم گاہوں میں سیکولر تعلیم دی جائے یا کسی خاص مذہب کی تعلیم و تربیت ممنوع ہوگی۔ یہ کتناا ہم مسئلہ تھا ۔ مگر اس کے لیے  مسلمانوں میں کوئی خاص بے چینی پیدا نہیں ہوئی ۔ کیوں۔ اس لئے  کہ اس فیصلہ سے ان کی د نیا پرستانہ زندگی پر کوئی براہ راست زد نہیں پڑتی تھی ۔جس چیز کے بگڑنے کا اندیشہ تھا وہ آخرت تھی نہ کہ دنیا ... اور جب دنیا سلامت ہو تو کسی کو پریشان ہونے کی کیاضرورت۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom