دو کردار

خوشی اور تنگی دونوں میں وہ انصاف پر قائم رہتے تھے

یرموک کی لڑائی میں خالد بن ولید (648ء) اسلامی فوجوں کے سپہ سالار تھے اور ابو عبیدہ بن الجراح ان کے ماتحت افسر کی حیثیت سے جنگ میں شریک تھے۔ حضرت عمر خلیفہ ہوئے تو انھوں نے خالد بن ولید کو معزول کر کے ابو عبیدہ بن الجراح کو سپہ سالانہ مقرر کر دیا اور خالدبن ولید کو ان کے ماتحت کر دیا ۔ یہ فرمان لے کر مدینہ سے جو شخص روانہ ہوا تھا، وہ مقام جنگ پر اس وقت پہنچا جب کہ طویل مقابلہ کے بعد لڑائی اپنے آخری انجام کو پہنچنے والی تھی اور فتح کے مقدمات ظاہر ہو چکے تھے ۔ قاصد نے یہ فرمان اولاً ابو عبیدہ بن الجراح کو دیا۔ ابو عبیدہ فرمان خلافت کے مطابق فوراً سپہ سالاری کا جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے کر فتح کا کریڈٹ وصول کر سکتے تھے ۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ خالد بن ولید کی ماتحتی میں بدستور لڑتے رہے :

فَأَخْفَى أَبُو عُبَيْدَةَ الْخَبَرَ وَصَارَ فِي مَكَانِهِ خَلْفَ خَالِدٍ حَتّىٰ ظَهَرَتْ مُقَدِّمَاتُ النَّصْرِ، وَقَدْ سُئِلَ عَنْ عَدَمِ أَخْذِهِ لِوَاءَ الْقِيَادَةِ عَلَى الْفَوْرِ، فَقَالَ: مَا سُلْطَانَ الدُّنْيَا أُرِيدُ، وَمَا لِلدُّنْيَا أَعْمَلُ۔

ابو عبیدہ  نے خیر کو چھپایا اور خالد کی ماتحتی میں بدستور  اپنے کو باقی رکھا یہاں تک کہ فتح کے مقدمات ظاہر ہو گئے۔         ان سے پو چھا گیا کہ قیادت کا جھنڈا آپ نے فوراً کیوں نہ لے لیا۔ فرمایا : میں دنیا کی بڑائی نہیں چاہتا اور نہ دنیا کے لیے  عمل کرتا ہوں ۔                                                                                                                            

فَلَمَّا وَصَلَ الْكِتَابُ إِلَى أَبِي عُبَيْدَةَ كَتَمَهُ مِنْ خَالِدٍ حَتَّى فُتِحَتْ دِمَشْقُ بِنَحْوٍ مِنْ عِشْرِينَ لَيْلَةً، فَقَالَ لَهُ خَالِدٌ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، مَا مَنَعَكَ أَنْ تُعْلِمَنِي حِينَ جَاءَكَ؟ فَقَالَ: إِنِّي كَرِهْتُ أَنْ أَكْسِرَ عَلَيْكَ حَرْبَكَ، وَمَا ‌سُلْطَانُ ‌الدُّنْيَا ‌أُرِيدُ، وَلَا لِلدُّنْيَا أَعْمَلُ . البداية والنهاية (9/ 585)

آخرت کے لحاظ سے کریڈٹ یہ تھا کہ خبرکو چھپایا جائے۔ دنیا کا کریڈٹ اس میں ملتا تھا کہ اس کو ظاہر کر دیا جائے ۔ ابوعبیدہ نے آخرت کا کریڈٹ لینا پسند کیا اور دنیا کے کریڈٹ کو نظر انداز کر دیا ۔

 اب خالدین ولید کے کردار کو دیکھئے۔ یرموک کی فتح کے بعد جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ اس عظیم جنگ کے فاتح خالد بن ولید کو سپہ سالاری سے معزول کر دیا گیا ہے تو ان کے اندر سخت بے چینی پیدا ہوگئی۔ بہت سے لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے، انھوں نے حضرت خالد کی بہادری اور جواں مردی پر تقریریں کیں اور ان کی معزولی پر اپنی نارضگی کا اظہار کیا ۔ ان کو ابھارا کہ وہ خلیفہ کا حکم ماننے سے انکار کر دیں اور وعدہ کیا کہ ہم سب لوگ آپ کا ساتھ دیں گے۔ (ويحرضون له على عصيان امر الخليفة ويعدونه با نهم سيكونون معه) مگر خالد بن ولید نے اس قسم کے مشورہ کو ماننے سے قطعی انکار کر دیا اور اس پر راضی ہو گئے کہ ابو عبیدہ بن الجراح کی ماتحتی میں ایک معمولی فوجی بن کر اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف لڑتے رہیں۔ اس وقت انھوں نے جو جملہ کہا وہ تاریخ نے ان الفاظ میں محفوظ رکھا ہے :

أَنا لا أُقاتِلُ في سَبيلِ عُمَر، وَلَكِنْ في سَبيلِ رَبِّ عُمَر.

میں عمر کی راہ میں جنگ نہیں کرتا   ،عمر کے رب کی راہ میں جنگ کرتا ہوں ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom