سوال وجواب

سوال :  قرآن میں ہے کہ " اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو یہ آیت مجھے بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے ۔ کیوں کہ بظاہر اس میں ہلاکت اور خطرہ والے راستہ سے بچ کر چلنے کی تعلیم ہے۔ مگر اسی کا نام تو ہلاکت ہے کہ آدمی خطرات کے راستہ پر چلنے سے ڈرے اور رسک نہ لینا چاہیے۔ فرد کا معاملہ ہو یا قوم کا، تمام بڑی بڑی ترقیاں انھیں کو ملتی ہیں جو اپنے آپ کو جان جوکھوں میں ڈال کر اقدام کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ زندگی کی اس حقیقت کو اسماعیل میرٹھی نے بڑی خوب صورتی سے دو شعروں میں بیان کر دیا ہے :

گھوڑ دوڑ میں کدائی کی بازی تھی ایک دن               ترکی پہ کوئی تازی پہ اپنے سوار تھا

جو ہچکچا کے رہ گیا سو    رہ گیا ادھر                        جس نے لگائی ایڑ وہ خندق کے پار تھا

جس قوم کا نظریہ یہ ہوکہ "خطرات سے بچ کر چلو "وہ قوم کبھی اونچی کامیابیاں حاصل نہیں کر سکتی ۔

جوا ب: زندگی کی حقیقت جو آپ نے بیان کی، وہ صدفی صد صحیح ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ رسک کے بغیر کوئی کامیابی نہیں ہوتی ۔ مگر آیت کا جو مطلب آپ نے لیا ، اصل مطلب اس کے بالکل برعکس ہے۔ پوری آیت یہ ہے :

وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا (بقرہ : 2:195 )

اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ  ڈالو کہ (خرچ کرنے سے رک جاؤ ) اور کام کو خوب اچھی طرح کرو۔

دین کی ضرورتوں میں اپنے جان ومال کو خرچ کرنا ، اپنی ذاتی ضرورتوں میں کمی کیے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اس لیے  کہا گیا کہ خواہ اپنی ذات کے لیے  کمی کرنا پڑے مگر دین کے لیے  جد وجہد کو بہر حال جاری رکھو۔ کیوں کہ اجتماعی زندگی برباد ہو جائے تو فرد بھی اپنے آپ کو بربادی سے بچا نہیں سکتا۔ اسی لیے  ان راہوں میں خرچ کرتے رہو جن سے اجتماعی زندگی طاقت ور ہوتی ہے۔ اس آیت کے سلسلہ میں حضرت حذیفہ اور حضرت ابو ایوب انصاری کی روایت حدیث کی کتابوں میں آئی ہے جو اس کے مفہوم کو پوری طرح واضح کر دیتی ہے ۔ ان کے نزدیک ہلاکت میں ڈالنے کا مطلب ہے اپنے مال اور اپنے گھر میں بیٹھے رہنا اور جہاد کو چھوڑ دینا ۔ ‌التَّهْلُكَةُ ‌الْإِقَامَةَ ‌فِي ‌الْأَهْلِ ‌وَالْمَالِ ‌وَتَرْكَ ‌الْجِهَادِ (تفسير الزمخشري الكشاف (1/ 237)

بخاری نے حضرت حذیفہ سے اس آیت کی مختصر شان نزول نقل کی ہے۔ اس کی صراحت حضرت ابو ایوب انصاری کی حدیث میں ہے جس کو ابو داؤد، ترمذی، حاکم، نسائی ، ابن حبان وغیرہ نے روایت کیا ہے اور حاکم نے شرط شیخین پر اس کو صحیح کہا ہے ۔ حضرت ابوایوب انصاری فرماتے ہیں کہ ہم انصار لوگ جب کچھ لڑائیاں آنحضرتؐ کی ہمراہی میں لڑچکے تو ایک دن ہم میں سے کچھ لوگوں نے آپس میں خفیہ مشورہ کیا کہ اب تو رسول اللہؐ کے ساتھ بہت اہل اسلام جمع ہو گئے  ہیں ، اگر ہم چند لوگ لڑائیوں میں آپ کے ساتھ نہ جائیں تو اپنی اقتصادیات کو درست کر سکتے ہیں اور مدتوں باہر رہنے سے جو گھر بار اجڑ گئے ہیں ان کی تلافی کی جاسکتی ہے اس وقت اللہ تعالٰی نے یہ آیت اتاری۔ اور آگاہ کیا کہ اس طرح کے اخراجات سے ہاتھ روکنا ہلاکت کا باعث ہے، اپنے آپ کو اس ہلاکت میں نہ ڈالو اور دین کے لیے  جان و مال خرچ کرنے میں لگے رہو۔( التعليقات الحسان على صحيح ابن حبان (7/ 104)

 یہ آیت خطرات اور اندیشوں کے علی الرغم حق کی راہ میں اقدام کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ نہ یہ کہ آدمی خطرات اور اندیشوں سے گھبرا کر ایسا اقدام کرنے سے رک جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom