مطالعہ
ڈاکٹر عبدالعلیم (1905-1976) نے برلن کے یہودی اور مسیحی پروفیسروں کے مشورہ سے ایک انگریزی مقالہ لکھا تھا۔ اس کا موضوع تھا "قرآن کا اعجاز " یہ مقالہ 1936 میں کتابی شکل میں شائع ہوا تھا ۔
یہی وہ مقالہ ہے جسں پر برلن یونیورسٹی نے مو صوف کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی ۔ اگر چہ یہ مقالہ علمی اعتبار سے اتنا ہلکا ہے کہ اس کو مقالہ کے بجائے محض ایک بیان کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔
مصّنف کا کہنا ہے کہ قرآن کے اعجاز کا عقیدہ محض ایک اذعانی عقیدہ(dogma) ہے۔تاہم پورے مقالہ میں خود ان کے اپنے عقیدہ کے حق میں کوئی دلیل نہیں ملتی ۔مقالہ کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن محمدؐ کے اپنے مذہبی تجربات کا ایک اظہار ہے۔ایک اُمّی کی زبان سے طاقت ور زبان میں ایک کلام کا تیار ہونا قدیم عرب میں ایک انوکھا واقعہ تھا۔ان حالات میں یہ بات چل پڑی کہ یہ خدائی کلام ہے اور ایسا کوئی بنا نہیں سکتا قرآن کے چیلنج کے جواب میں کسی نے دوسرا قرآن بنانا چاہا تو اس کو کچل دیا گیا اور اس کے بنائے ہوئے کلام کو بھی مٹا دیا گیا۔اسود عنسی کے صرف ایک دو فقرے تاریخ میں باقی رہے ۔مسلیمہ اور ابن مقفع کی بنائی ہوئی کچھ آیتیں ملتی ہیں ۔مگر وہ اتنی معمولی ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی مسلمان نے خود ساختہ فقرے مذاق کے طور پر بنا کر ان کی طرف سے مشہور کر دیے۔قرآن کو معجزہ سمجھنے کا یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ چوتھی صدی ہجری کے آخر تک وہ جامد عقیدہ بن گیا۔ عوامی نفسیات ہے کہ بے بنیاد افواہیں وقت گزرنے کے بعد تاریخ کا جزو بن جاتی ہیں، اسی طرح یہ عقیدہ بھی تاریخ اسلامی کا جزو بن گیا۔
راقم الحروف کے لیے ناقابل فہم ہے کہ مندرجہ بالا قسم کی کوئی بات کس طرح یہ ثابت کرتی ہے کہ قرآن ایک انسانی کتاب ہے اور اس کے اس چیلنج کی کوئی حقیقت نہیں کہ اس کے جیسی کتاب کوئی نہیں بنا سکتا۔
مصنف کو اعتراف ہے کہ "ایک اُمّی کی زبان سے غیر معمولی طور پر ایک طاقت ور کلام "صادر ہوا ۔ ظاہر ہے کہ اس غیر معمولی واقعہ کی کوئی توجیہہ ہونی چاہیے۔ جب انسانی دائرہ میں اس کی کوئی توجیہہ موجود نہیں ہے تو اس کے بعد دوسرا مفروضہ یہی ہو سکتا ہے کہ یہ غیر انسانی ذہین سے نکلا ہوا کلام ہے۔ اس کے سوا کوئی اور توجیہہ نہ ممکن ہے اور نہ مصنف نے پوری کتاب میں کہیں پیش کی ہے ۔
لوگوں کا بنایا ہوا قرآن مصنف کے دعوے کے مطابق اگر ضائع کیا گیا ہو تو یہ واقعہ بہرحال دور اقتدار میں ہوا ہوگا۔ اسلام کے اقتدارمیں آنے سے پہلے 20 سال تک قریش نے اور مخالف عربوں اور یہودیوں نے یہ کام کیوں نہ کیا۔ انھوں نے پیغمبر اسلامؐ کو زیر کرنے کی تما م ممکن صورتیں اختیار کیں ۔ مگر یہی ایک تدبیرنہ کی کہ قرآن کے چیلنج کے مطابق قرآن جیسا ایک کلام بناکر پیش کر دیتے۔ کہ آپ کو زیر کرنے کا یہ سب سے آسان طریقہ تھا۔ اور بالفرض کسی وجہ سے ماضی کے نادان مخالف اس ممکن تدبیر کو اختیار نہ کر سکے تو آج عربی زبان کے بے شمار ماہرین دنیا میں موجود ہیں جو ڈاکٹر عبدالعلیم صاحب کی طرح قرآن کے انسانی کلام ہونے کے مدعی ہیں، انہیں کیا
چیز روک رہی ہے کہ وہ ایسا کلام بناکر دنیا کے سامنے رکھ دیں۔ اس طرح وہ اپنے دعوے کو زیادہ بہتر طور پر ثابت کر سکیں گے ۔
تا ہم زیر نظر کتاب کے صفحہ 18 پر اس کی ایک چھوٹی سی مثال موجود ہے۔ قرآن کی آیت (لا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ)( بنی اسرائیل :17:88) کے مفہوم کو مصنف نے اپنے طور پر يَعْجِزُونَ عَنْهُ کے لفظوں میں لکھا ہے۔عربی جاننے والوں کے لیے انھیں دونوں فقروں کا تقابل قرآن کے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کیسی عجیب بات ہے ، انسان اس ایک فقرے کے مانند بھی کوئی فقرہ وضع نہیں کر سکتا کہ " وہ ایسا قرآن بنا کر نہ لاسکیں گے "، پھر بھی اس کو اصرار ہے کہ قرآن کوئی ادبی معجزہ نہیں۔ سائنسی دور میں اس سے زیادہ غیر سائنسی موقف کی کوئی دوسری مثال نہیں ملے گی ۔
Dr. Abdul Aleem Igazul Quran Aligarah,1936, pp.54