اور اسے ٹھیکہ مل گیا
دبئی خلیج فارس کی چھوٹی سی ریاست ہے۔ اس کی آبادی صرف دو لاکھ ہے ۔ تاہم وہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ دبئی کے شیخ نے منصوبہ بنایا کہ اپنے شہریوں کی رہائش کا انتظام کرنے کے لیے 2100مکا نات تیار کرائیں۔ ہر مکان کا تعمیری رقبہ 250 مربع میٹر ہو گا۔
مختلف ملکوں میں اشتہار دیے گئے۔ دنیا بھر سے تعمیری ٹھیکہ داروں نے اپنی اپنی درخواستیں بھیجیں حتٰی کہ ان کے نقشوں اور حسابات اور سامان تعمیر کےنمونوں سے کئی بڑے بڑے کمرے بھر گئے ۔ مگر سادہ مزاج شیخ کو محسوس ہوا کہ محض نقشوں اور سامانوں کو دیکھ کر ان کے لیے فیصلہ کرنامشکل ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ مطلوبہ گھر کا ایک نمونہ بنا کر دکھا ئیں ۔ تاکہ اندازہ ہو سکے کہ کسی حد تک وہ ہمارے معیار کے مطابق ہے اور ہماری ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے۔
یہ شرط ٹھیکہ داروں کو منظور نہ تھی ۔ وہ واپس چلے گئے۔ ان کو محسوس ہوا کہ نمونہ کا گھر بنا کر دکھانے سے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنی درخواست کو واپس لے لیں۔ تاہم پونا (مہاراشٹر) کا ایک ہندستانی انجنیئر ہمت نہیں ہارا۔ اس نے کہا : میں آپ کی مطلوبہ شرط کو پورا کروں گا۔ اس نے شیخ کو بتایا کہ دبئی میں وہ جس قسم کے مکانات چاہتے ہیں، ویسے ہی کئی مکان اس نے مہاراشٹر میں بنائے ہیں۔ یہ مکانات سیمی ایر کنڈیشنڈ ہیں ۔ وہ خواہ صحرا میں کیوں نہ ہوں ان کے اندر کا درجہ حرارت باہر کی فضا سے دس درجہ سنٹی گریڈ کم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس سردیوں میں ان کا درجہ حرارت باہر کی فضا سے دس درجہ سنٹی گریڈ زیادہ ۔ اس کے باوجود ان کا تعمیری خرچ عام مکانات سے تقریباً ، 10فی صد کم ہو گا۔
ہندستانی انجینئر مسٹر با بو راؤجی ۔ شر کے نے پیش کش کی آپ اپنے قابل اعتماد افسروں کی ایک ٹیم میرے ساتھ بھیجے ، وہ پونا میں چھ کارخانوں کے اندر بنے ہوئے ہمارے مکانات کو دیکھیں۔ اس نے مزید کہا ان کا سفر خرچ ہمار ے ذمہ ہوگا۔
اس پیش کش کے مطابق دبئی کے افسروں کی ایک ٹیم ہندوستان آئی۔ اس نے یہاں کے مکانات کو دیکھا اور واپس جا کر شیخ کو اس کی رپورٹ پیش کی ۔ 22 اگست 1976کو یہ ٹھیکہ ہندستانی فرم کو مل گیا ۔ٹھیکہ کی رقم 75 کروڑ روپے ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ظاہر حالات ہمیشہ اضافی ہوتے ہیں ۔ جہاں لوگ نا امید ہو چکے ہوں ، وہاں بھی امید کی ایک صورت موجود رہتی ہے۔ بشرطیکہ کوئی استعمال کرنے والا اس کو استعمال کرنا جانتا ہو۔ نا امیدی کا لفظ ، بقول نپولین صرف بیوقوفوں کی ڈکشنری میں پایاجاتا ہے