ایک ملاقات

ناندیڑ، تقسیم سے پہلے ریاست حیدر آباد کا حصہ تھا۔ اب وہ مہاراشٹر کا ایک ضلع ہے۔ دہلی سے 1650کیلومیٹر کے فاصلہ پر آباد اس علاقہ میں اگر آپ اس کے ماضی کے آثار دیکھنا چاہیں تو وہ اس کی روزمرہ کی سرگرمیوں میں کہیں نظر نہ آئیں گے ۔ اس واقعہ کو آپ گزری ہوئی کہانی کے طور پر ہی کسی سے سن سکتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ یہاں ایسے لوگ تو بہت ہیں جو بے رحم حال کو اپنی محرومیوں کا ذمہ دار سمجھتے ہوں، مگر ایسے لوگوں کی تلاش سعی لاحاصل سے زیادہ نہیں جو زندگی کی اس حقیقت سے آگاہ ہوں کہ حال در اصل ماضی ہی کا دوسرا نام ہے۔ افراد ہوں یا قومیں اپنے آنے والے دنوں میں وہ وہی چیز کاٹتی ہیں جس کا بیج انھوں نے اپنے پچھلے دنوں میں بویا تھا۔

جولائی 1975ء کا آخری اور اگست کا پہلا ہفتہ میرا اس علاقہ میں گزرا۔ ناندیر سے 50 میل کے فاصلے پر اس کا ایک قصبہ مکھیڑ ہے۔ یہ حیدر آباد سے ڈیڑھ سو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ مکھیڑ میں جن لوگوں سے ملاقات ہوئی ، ان میں سے ایک قابل ذکر شخص کشن جیونت را و ت پٹیل (پیدائش (1943) ہیں۔ چھایا اسٹوڈیو کے نام سے یہاں ان کی فوٹو گریفی کی دکان ہے۔ ان کی مادری زبان مرہٹی ہے۔ ہندی بھی اچھی جانتے ہیں۔ انھوں نے ہندی زبان میں متعدد اسلامی کتابیں پڑھی ہیں۔ قرآن کا ہندی ترجمہ روزانہ اہتمام سے پڑھتے ہیں۔ چار بار مکمل ترجمہ پڑھ چکے ہیں۔ اب پانچویں بار پڑھنا شروع کیا ہے۔

26جولائی کی شام کو ہم ان کے کھیتوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ برسات کے موسم کی وجہ سے ہر طرف ہریالی چھائی ہوئی تھی۔ ہرے بھرے کھیتوں سے دور پہاڑ کا منظر اس میں مزید حسن پیدا کر رہا تھا " آپ کی فصل ما شاء اللہ آس پاس کے سب کھیتوں سے بہتر ہے  " ۔میں نے کہا۔ " یہ خدا کی دین ہے ، ورنہ ہم نے تو کوئی خاص کوشش نہیں کی تھی "  انھوں نے جواب دیا۔ ایک اور صاحب جو اس وقت ہمارے ساتھ تھے انھوں نے بتایا کہ کشن پٹیل صاحب اپنی پیدا وار میں سے باقاعدہ عشر نکالتے ہیں۔  " یہ اسی کی برکت ہے ، انھوں نے اپنی بات کو  مکمل کرتے ہوئے کہا اور کشن پٹیل صاحب نے مسکرا کر اس کی تصدیق کی۔

قرآن کے سلسلے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس میں مجھے کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آئی ۔ سب نہایت عمدہ باتیں ہیں۔ آدمی اگر ان کو اپنا لے تو اس کی زندگی سدھر جائے ۔ میں نے کہا بطور اعتراض نہیں تاہم بطور سوال آپ کے دماغ میں کچھ باتیں ہوسکتی ہیں، ان کو بتائیے تاکہ ان پرگفتگو کی جائے ۔

انھوں نے ایک سوال یہ رکھا کہ عبادت نماز روزہ کا نام ہے یا عمل کا۔ میں نے کہا عبادت اصلاً تو نماز روزہ ہی کا نام ہے ۔ تاہم جب آدمی کے اندر صحیح معنوں میں نماز روزہ پیدا ہو جاتا ہے تو اس کے اخلاق و معاملات میں بھی لازمی طور پر اس کی جھلک آنے لگتی ہے۔ اس لحاظ سے عمل بھی عبادت کے تقاضوں میں شامل ہے۔ انھوں نے بعض اسلامی کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں لکھا ہے کہ نماز عملی زندگی کے لیے  ٹریننگ ہے ۔ میں نے کہا، اس کا مطلب یہ ہےکہ نماز آدمی کی اصل زندگی سے الگ نہیں۔ جب ایک آدمی حقیقی معنوں میں نمازی بن جاتا ہے تو اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کے اندر ایک ایسی طبیعت ابھرتی ہے جو برائیوں سے نفرت کرنے لگتی ہے اور بھلائیوں کو چاہنے لگتی ہے۔ باقی جہاں تک نماز کی اصل حقیقت کا تعلق ہے، تو نماز اللہ سے نزدیکی کا نام ہے، جیسا کہ قرآن کی سورہ نمبر 96 میں آپ نے دیکھا ہو گا۔ یہ بات قرآن و حدیث میں بھی بتائی گئی ہے اور تجربہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آدمی جب سجدہ میں سر رکھتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالکل خدا کے پاس پہنچ گیا ہے۔ یہ نزدیکی کا احساس کسی بھی دوسری چیز سے حاصل نہیں ہوتا ۔ اور آپ جانتے ہیں کہ ایک بندہ کے لیے  سب سے بڑی چیز یہی ہے کہ وہ اپنے مالک کے نزدیک ہو جائے۔ سورہ مائدہ کی آیت نمبر69کے تحت انھوں نے سوال کیا کہ اس سے تو یہی بات نکلتی ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ یہودی اور عیسائی وغیرہ بھی نجات یافتہ ہیں۔ اسی طرح سورہ حج آیت نمبر40 سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسجدوں کے علاوہ گر جوں وغیرہ میں خدا کا جو نام لیا جاتا ہے، قرآن اس کی بھی تصدیق کر رہا ہے ۔

پہلی آیت کے سلسلے میں میں نے کہا کہ اس میں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ نجات کا تعلق کسی گروہ یا نسل سے  نہیں ہے خواہ وہ مسلمانوں کا گروہ ہو یا یہودیوں کا یا عیسائیوں کا۔ بلکہ عمل سے ہے ، اور عمل نام ہے اس کا کہ آدمی خدا پر ایمان لائے ، آخرت پر یقین کرے اور عمل صالح کی زندگی اختیار کرے۔ اس آیت میں گرو ہی نجات کی نفی کرتے ہوئے عقیدہ و کردار کو نجات کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ اسی طرح دوسری آیت میں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ خدا کا حقیقی ذکر کہاں ہوتا ہے۔ اس میں دراصل اللہ کا یہ قانون بنایا گیا ہے کہ وہ کسی ایک گروہ کو مستقل طور پر اقتدار پر قابض رہنے نہیں دیتا۔ اگر ایسا نہ ہو تو حکمراں طبقوں میں اجارہ داری کی ذہنیت پیدا ہو جائے اور ان کا ظلم اس قدر بڑھ جائے کہ وہ نہ صرف اپنے سیاسی مخالفوں کو قتل کریں بلکہ معاشرہ کے  بےضر ر طبقات کو بھی روند ڈالیں، حتی کہ عبادت خانوں میں خاموشی کے ساتھ خدا کا نام لینے والے لوگوں کو بھی۔

 "حضرت اسود " جس کو حج میں چومتے ہیں، یہ کیا چیز ہے، کیونکہ قرآن میں حج کے جوا حکام ہیں ان میں حضرت اسودکا کوئی ذکر نہیں۔

یہ "حضرت اسود "نہیں بلکہ حجر اسود ہے۔ اس کے معنی  ہیں کالا پتھر۔ یہ کعبہ کے ایک کونے میں لگا ہوا ہے اور وہیں سے طواف شروع کرتے ہیں۔ اس کے چومنے کے بارے میں میں نے بتایا کہ اس کا کوئی تعلق حجر اسود کے "حضرت "ہونے یا مقدس سمجھنے سے نہیں ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر نے فرمایا ،یہ ویسا ہی ایک پتھر ہے جیسا کہ عام پتھر۔ حج کے موقع پر جب ایک مسلمان حجر اسود کو چومتا ہے یا کعبہ کے غلاف سے لپٹتا ہے تو یہ اس کے اس جذبہ کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب سے لپٹ جائے اور اس کے قدموں کو چوم لے ۔ اس میں ہر گز ایسا کوئی عقیدہ نہیں ہوتا کہ حجر اسود یا غلاف کعبہ کے اندر خود کوئی تقدس ہے یا وہ آدمی کو نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔

پھر یہ معاملہ صرف حجر اسود تک محدود نہیں، حقیقت یہ ہے کہ مومن کی زندگی میں ایسے مواقع بار بار روز آتے رہتے ہیں جب وہ سجدہ میں اپنا سر رکھتا ہے تو زمین کا وہ ٹکڑا اس کے لیے  " حجر اسود" بن جاتا ہے جہاں اس کی پیشانی اپنے رب کی دھرتی کو چھورہی ہو۔ اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا سر خدا کے قدموں سے لپٹ گیا ہے۔ یہاں تک کہ یہ کیفیت کبھی اتنی شدت سے طاری ہوتی ہے کہ اس کا جی چاہتا ہے کہ اپنا سرہی نہ اٹھا ئے ۔ اسی طرح کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ درخت کی ایک ہری پتی کو دیکھتا ہے یا ایک خوبصورت پھول اس کے سامنے آتا ہے، تو خدا کی یاد اور محبت ایسے جذبہ کی صورت میں ڈھل جاتی ہے کہ وہ اس پتی اور پھول کو خدا کا ایک جلوہ سمجھ کر اس کو اپنی آنکھوں سے لگا لیتا ہے ۔ خدا سے چمٹ جانے اور اس کے قدموں کو چوم لینے کا یہی جذبہ جو مومن کی زندگی میں روزانہ کسی نہ کسی شکل میں ظہور میں آتا ہے، وہ حج کے موقع پر حجر اسود کو چومنے یا غلاف کعبہ سے لپٹنے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ حجر اسود مومن کی عام اور روز مرہ زندگی ہی کا ایک تجربہ ہے ، وہ نہ کوئی راز ہے اور نہ کوئی منفرد اور مخصوص چیز۔ اگر چہ عام انسان اسی خاص پتھر سے اس کیفیت کو پاتے ہیں جو کعبہ میں نصب ہے۔ مگر جو لوگ گہرائی کے ساتھ خدا کو پالیتے ہیں، ان کی نظر تعینات سے بلند ہو جاتی ہے۔ ان کے لیے  زمین کا ہر ذرّہ حجر اسود ہے اور درخت کا ہرپتہ غلاف کعبہ ۔

"سورهٴ آل عمران آیت نمبر 37 میں ہے کہ حضرت مریم کے پاس جب حضرت ذکریا آتے تو وہ ہمیشہ ان کے پاس رزق پاتے ۔ یہ رزق کیا آسمانی پھل ہوتا تھا ۔"

"عوام میں یہی مشہور ہے کہ وہ آسمانی پھل ہوتا تھا ، مگر خود آیت میں اس کی تردید موجود ہے۔ آیت میں بتایا گیا ہے کہ وکفلها ذکریا یعنی حضرت مریم کی کفالت حضرت زکریا کرتے تھے۔ اب ظاہر ہے کہ جب ان کے کفیل اوران کی ضروریات کے ذمہ دار حضرت ذکریا تھے تو آسمان سے ان کا کھا نا آنے کی کیا ضرورت تھی ۔ آسمان سے اس قسم کی مدد کبھی خواہ مخواہ نہیں آتی بلکہ صرف حقیقی ضرورت کے وقت اور انتہائی مخصوص حالات میں آتی ہے ۔ یہ رزق حقیقتاً رزق معرفت تھا۔ جب ایک شخص کے اندر ایمان کا اجالا پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کی طرف مائل ہو جاتا ہے تو ساری دنیا اس کے لیے  علم و معرفت کا دستر خوان بن جاتی ہے۔ ہر واقعہ اور ہر مشاہدےمیں اس کو خدائی انوار دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس کی روح کو ایک اعلیٰ رزق کی خوراک پہنچنے لگتی ہے۔ حضرت مریم کی باتوں میں اسی " رزق " کے جلوے حضرت زکریا کو نظر آئے تھے۔

" قرآن میں بار بار کہا گیا ہے کہ زمین و آسمان پر غور کرو، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن یہ چاہتا ہے کہ لوگ سائنس کے علوم پڑھیں۔" 

میں نے کہا، یہ صحیح ہے کہ سائنس زمین و آسمان ہی کے علوم کا نام ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ سائنسی علوم سے خدا کی معرفت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ مگر جہاں تک قرآن کے اس قسم کے ارشادات کا تعلق ہے ، اس سے مراد معروف سائنس کے علوم نہیں ہیں ۔ بلکہ زمین و آسمان کی آیات (نشانیوں) پر غور کرنا ہے۔ زمین و آسمان کا سائنسی مطالعہ  اور زمین و آسمان کی نشانیوں پر غور کرنا ، دونوں میں بہت فرق ہے ۔ سائنسی مطالعہ یا تو مجرد مطالعہ ہے یا افا دی مطالعہ ۔ کیا وجہ ہے کہ سائنس داں کی ساری توجہ ٹکنکل پہلوؤں پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس قرآن یہ چاہتا ہے کہ زمین و آسمان کے نظام میں جو بے شمار سبق کے پہلو ہیں، ان پر لوگ غور کریں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کو کھولا ہے، اسی طرح اس نے کائنات کے اندر اپنی معرفت کے شرارے رکھ دیے ہیں ۔ جو لوگ اس نظر سے کائنات پر غور کرتے ہیں، وہ اس کے اندر ایمان و معرفت کے اتھاہ خزانے پالیتے ہیں۔ حتی کہ اس مشاہدہ کے آخری مقام پر پہنچ کر وہ پکار اٹھتے ہیں کہ کتابیں صرف دو ہیں: قرآن اور کائنات ۔

"قرآن کی سورہ نمبر 33 میں کہا گیا ہے کہ منھ بولا بیٹا (لے پالک) بنا نا غلط ہے ۔ دوسری جگہ قرآن میں ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کہہ دے کہ تجھ کو طلاق ہے تو اس پر طلاق پڑ جاتی ہے۔ یہ سوال پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا ایک جگہ قرآن کہہ رہا ہے کہ منھ بولے لفظوں سے کوئی کسی کا بیٹا نہیں ہوتا، دوسری جگہ منھ سے کچھ الفاظ نکال دینے سے ایک شخص کی بیوی اس کی بیوی نہیں رہتی ۔"

 میں نے کہا کہ یہ سوال میرے لیے  نیا ہے اور اس کا جواب میں کل دوں گا۔ اگلے روز میں نے بتایا کہ دونوں مثالوں میں فرق ہے۔ بیوی کا معاملہ یہ ہے کہ نکاح کے ذریعے ایجاب و قبول سے وہ کسی کی بیوی بنتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ رشتہ لفظوں کے ذریعے قائم ہوتا ہے، اس لیے  لفظوں ہی سے وہ ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ مگر بیٹے کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ بیٹا پیدائش سے وجود میں آتا ہے۔ اس لیے  لفظوں کے ذریعے نہ کوئی کسی کا بیٹا بن سکتا نہ لفظوں کے ذریعے وہ کسی کی فرزندی سے الگ ہو سکتا ۔

"مسلمانوں میں جو لوگ ایسے ہیں کہ محض مسلمان کے گھر میں پیدا ہو گئے ہیں مگر اسلام پر ان کا عمل نہیں، وہ باعتبار حقیقت کا فروں کی مانند ہیں۔ پھر آپ ایسے لوگوں کو مسلمان کیوں کہتے ہیں، ان کے کفر کا اعلان کیوں نہیں کرتے ؟ میں نے کہا اسلام کا اصل تعلق آخرت سے ہے، وہاں کسی شخص کو جو چیز ملے گی ، وہ اس کی اصل حقیقت کی بنیاد  پر ملے گی نہ کہ محض شہرت اور نام کی بنیا د پر۔ باقی جہاں تک دنیا کا تعلق ہے، یہاں اس کے سوا کوئی اور قابل عمل صورت نہیں کہ جو شخص اپنے کو مسلمان کہتا ہے، ہم اس کو مسلمان سمجھیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو معاشرہ کے اندر بڑا انتشار پیدا ہو گا، ان کی اصلاح کے لیے  تو ہم ان سے سب کچھ کہہ سکتے ہیں، مگر ہم ان کے اوپر جج  بن کر نہیں بیٹھ سکتے۔

"ایک شخص کا نام رابرٹ سن ہے ، مگر وہ خدا اور رسول پر ایمان رکھتا ہے اور ان ساری باتوں کو مانتا ہے جو اسلام میں بتائی گئی ہیں۔ اگر وہ رابرٹ سن نام کے ساتھ ہی مرجاتا ہے تو اس کی نجات ہوگی یا نہیں۔"

میں نے کہا کہ آخرت کی نجات کا کوئی بھی تعلق نام یا اعلان سے نہیں ہے ۔ حنظلہ ایک مسلمان صحابی کا نام تھا اور حنظلہ بن ابو سفیان ایک کافر بھی تھے جو بدر میں مارے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو واقعات ملتے ہیں، ان میں آپ نے صرف چند ہی لوگوں کے نام تبدیل کیے۔ مثلاً ایک شخص کا نام عبد شر تھا۔ آپ نے اس کا نام عبد خیر رکھ دیا۔ اس کے علاوہ آپ سے پہلے جو انبیاء دوسری قوموں اور دوسری زبانوں میں آئے ، ان کے یا ان کے ساتھیوں کے نام عربی نہ تھے بلکہ ان کی اپنی زبان یار واج کے مطابق تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ نجات کا معاملہ تمام تر خدا  اور بندے کے درمیان کا ایک معاملہ ہے۔ اس نجات کے لیے  اصل چیز اگرچہ ایما ن ہے مگرایمان کی کچھ علامت اس کی زندگی میں بھی ظاہر ہونی چاہیے۔ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ انھوں نے کہا ہم آپ پر ایمان لاتے ہیں مگر ہم نہ زکوۃ دیں گےنہ نماز پڑھیں گے ۔ آپ نے فرمایا : لَا ‌خَيْرَ ‌فِي ‌دِينٍ لَا رُكُوعَ فِيهِ (اس دین میں کوئی بھلائی نہیں میں میں خدا کے آگے جھکنا نہ ہو) ( مسند أحمد,حدیث نمبر17913) جب ایک شخص دل سے خدا کو مانتا ہے تو اس کے جسم اور اس کے مال اور تعلقات میں بھی خدا پرستی کا اظہار ہونا چاہیے۔ کوئی آدمی میرے ایمان اور خدا پرستی کو نہ جانے تو کوئی حرج نہیں مگر خدا کو تو جاننا چاہیے خدا کے سامنے تو بہر حال اس کا اظہار ہونا چاہیے خواہ پردہ کے اندر چھپ کر ہی کیوں نہ ہو۔

"عشر کس کو دینا چاہیے۔"

میں نے کہا کہ عشروز کوۃ  ایک قسم کا اجتماعی ٹیکس ہے۔ اس کی ادائیگی کی اصل صورت تو یہ ہے کہ ایک اجتماعی ادارہ ہو اور وہ اس کو وصول کر کے مقررہ مدوں میں اس کو خرچ کرے مگر آج چونکہ ایسا کوئی ادارہ قائم نہیں ہے، اس لیے  موجودہ صورت میں تو یہی ہو سکتا ہے کہ اپنی سمجھ کے مطابق اس کو ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا جائے، یا اور جو مدیں قانونی طور پر مقر رہیں، ان میں اس کو خرچ کر دیا جائے ۔

انھوں نے بتایا کہ فوٹوگریفی کا کام چھوڑ کر میں کوئی دوسرا دھندا کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کام کی تبدیلی کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ میں نے اس کام میں کافی پیسہ کمایا اور اب بھی میرے لیے  اس میں اچھا میدان ہے۔ مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ اب میں اس کام کے قابل نہیں رہا۔ فوٹو گریفی کے کام میں کامیابی کے لیے  نمائشی ذہنیت اور موقع پرستی بہت ضروری ہیں ۔ مگر اب میرا مزاج بدل گیا ہے۔ اب میں سادہ زندگی اور جائزکاروبار کو اپنا نا چاہتا ہوں، اور اس طرح کی زندگی کے ساتھ فوٹو گریفی کے کام کا جوڑ نہیں بیٹھتا۔ اس لیے  اب میں نے سوچا ہے کہ اپنی موجودہ دکان کے اوپر کچھ کمرے بنواکر فوٹو گریفی کا کام کسی کی شرکت میں اور منتقل کر دوں اور نیچے خود کرانہ کی دکان کھول لوں ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom