اسلامی مرکز کا مقصد
اسلام کا پیغام سارے انسانوں تک پہنچانا ہے۔
ختم نبوت کے بعد ،امت محمدی مقام نبوت پر ہے مسلمانوں کو اب قیامت تک ٹھیک وہی کام انجام دینا ہے جس کے لیے اس سے پہلے پیغمبر آتے تھے۔ پیغمبر اپنے رب کے یہاں صرف اس وقت بری الذمہ ہو سکتے تھے جب کہ وہ اس پیغام کو اپنے تمام مخاطبین تک پہنچا دیں جو ان کو وحی آسمانی کے ذریعے دیا گیا ہے۔ اسی طرح امت محمدی کی نجات کی واحد صورت یہ ہے کہ وہ قوموں کے سامنے خدا کے دین کی گواہ بن کر کھڑی ہو، وہ لوگوں کو آنے والے یوم الحساب سے آگاہ کرے۔ اگر امت اس دعوتی ذمہ داری کو ادا نہیں کرتی تو کوئی بھی دوسری چیز اس کو نجات دینے والی نہیں بن سکتی، نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں ۔
پیغام آخرت کا حامل ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کی لازمی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ دوسری قوموں سے وہ دنیوی مفادات کے لیے کش مکش کرنے سے مکمل پر ہیز کریں۔ ان کے ساتھ حق تلفی کی جائے جب بھی اپنے دنیوی مسائل کے سلسلے میں ان کے لیے واحد صحیح رویہ "صبر" ہے یعنی خود اپنی تعمیری کوششوں پر بھروسہ کرنا۔ دوسروں کے خلاف احتجاج اور مطالبات کی مہم چلانے کے بجائے اپنے خداداد مواقع میں اپنے لیے رزق تلاش کرنا۔ مسلمانوں کے لیے دوسری تمام قومیں مدعو کی حیثیت رکھتی ہیں ان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے کسی عمل سے ان کو اپنا سیاسی اور معاشی حریف بنا لیں۔ انہیں ان قوموں کو دعوت حق کا مخاطب بنانا ہے، نہ یہ کہ دنیوی مسائل کے نام پر ان سے جھگڑا کر کے ان کو اپنے سے دور کر دیا جائے ۔
اسلامی مرکز کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کی اصل ذمہ داری کے لیے تیار کیا جائے اور موجودہ زمانے کے تقاضوں کے لحاظ سے خدا کے پیغام کو اس کے تمام بندوں تک پہنچانے کی منصوبہ بندی کی جائے۔
مسجدیں عالم اسلامی کی نگہبان ہیں ۔مغلوں نے تیرھویں صدی عیسوی میں مشرق کی جانب سے عالم اسلام پر حملہ کیا اور اس کے بڑے حصے کو تاراج کر ڈالا۔ مگر وہی مسجدیں جن کو ہلاکو نے سمر قند سے حلب تک اپنے راستہ میں تباہ کیا تھا، اس کے پوتوں نے دوبارہ ان کی تعمیر کی اور ان کی چھتوں کے نیچے خدائے واحد کے آگے سجدہ کیا مسجد ایک قسم کا دار الاسلام ہے۔ وہ اللہ کی یاد کی جگہ ہے۔ وہ اسلامی اتحاد کا مرکز ہے ، وہ مسلمانوں کے اعتماد علی اللہ کا نشان ہے۔ جب اسلام زندہ تھا تو مسجد صرف مسجد نہ تھی بلکہ وہاں اسلامی زندگی کے تمام شعبے قائم ہوتے تھے۔ مثلاً عبادت گاه ، مدرسہ، دار القضاء، اجتماع گاه، اسپتال کتب خانہ مسافرخانہ تبلیغی مرکز، مقام مشوره و غیره - اسلامی مرکز میں ہم چاہتے ہیں کہ مسجد کو دوبارہ اس کی اصل حیثیت میں زندہ کریں۔
*****
راقم الحروف نے ہفت روزہ الجمعیتہ 27 نومبر1970 ء میں ایک مضمون شائع کیا تھا جس میں مسلمانوں کی پچھلی ڈیڑھ سو سالہ کوششوں کا جائزہ لینے کے بعد کہا گیا تھا کہ اس مدت میں بے شمار بڑی بڑی تحریکوں کے وجود میں آنے کے باوجود اسلام کو زندہ نہ کیا جا سکا۔ اس سلسلہ میں تجزیہ کرتے ہوئے بتا یا گیا تھا کہ اس ناکامی کی واحد بڑی وجہ یہ تھی کہ ہمارے مصلحین کی کوششوں کا رخ تعمیر کے بجائے سیاست کی طرف رہا ۔ آخر میں یہ تجویز درج تھی:
”موجودہ حالات میں احیائے اسلامی کے کام کا آغاز جہاں سے ہونا چاہیے ، اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ اعلی پیمانے پر ایک اسلامک سنٹر کا قیام عمل میں لایا جائے۔ یہ اسلامک سنٹر ہر قسم کے عصری ذرائع سے اس قدر مسلح ہو کہ وہ تمام مسلمانوں کے لیے پاور ہاؤس کا کام دے۔ وہ اسلامی بھی ہو اور عالمی بھی اور جدید بھی۔( صرف ایک استثناء کے ساتھ وہ کسی بھی معنی میں سیاسی نہ ہو)“
اس تجویز کو پچھلے چھ برسوں میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ یہ پورا مضمون عربی میں ترجمہ ہوکر 23 صفحات کے کتابچہ کی شکل میں قاہرہ اور بیروت سے شائع ہوا اور اس کے متعد د ایڈیشن نکل گئے۔ علمی ودینی جرائد میں اس کے بارے میں نہایت حوصلہ افزا تبصرے شائع ہوئے ۔
اب مختلف حضرات کے شدید اصرار پر اسلامی مرکزکا قیام عمل میں آگیا ہے۔ الرسالہ اسی کے ترجمان کے طور پر نکالا جا رہا ہے ۔ تاہم سب سے بڑا مسئلہ اس کے لیے جگہ کی فراہمی ہے۔ فی الحال عارضی طور پر اس کا دفتر ایک مکان میں رکھا گیا ہے ۔ مگر اس کی وسعت اور اہمیت کے اعتبار سے ضروری ہے کہ اس کے لیے مستقل عمارت ہو جہاں اس کے تمام شعبوں کو زیر عمل لایا جا سکے۔
بہتر یہ ہے کہ یہ مرکز کسی مسجد کے ماحول میں قائم ہو کوئی قدیم مسجد ہو تواس کے گرد و پیش کمرے تعمیر کرالیے جائیں اور اگر خالی جگہ ملے تو وہاں مسجد کے ساتھ ضروری تعمیرات کرائی جائیں ۔ اس سلسلے میں جو لوگ کسی قسم کا تعاون کر سکتے ہوں وہ تفصیلات سے مطلع فرمائیں ۔