اس تقسیم کار کا ایک فائدہ یہ بھی ہے
اسلام میں عورت اور مرد کے دائرہ عمل کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔ عورت گھر کے لیے اور مردباہر کے لیے ۔ تقسیم نہ صرف اس لیے صحیح ہے کہ حیاتیاتی اور عضویاتی اعتبار سے دونوں صنفوں میں فرق ہے۔ بلکہ اس میں بہت سے اجتماعی فائدے بھی ہیں۔ ان میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اس تقسیم کے ذریعہ دونوں کو ایسے قابل اعتماد ساتھی مل جاتے ہیں جو ایک دوسرے کے لیے بہترین مشیر بن سکیں۔
خاندان نسل انسانی کی اکائی ہے اور معاشرہ اس کا مجموعہ۔ دونوں اپنی اپنی جگہ پر انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ تجربہ بتاتا ہے کہ زندگی کے ان دونوں میدانوں میں بار بارایسے گمبھیر مسائل آتے ہیں جن میں وہ شخص بے لاگ رائے قائم نہیں کر پاتا جو خود مسئلہ کے اندر گھرا ہوا ہو۔ ایسے وقت میں ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی کے پاس ایک ایسا مشیر ہو جو خود مسئلہ سے متعلق نہ ہوتا کہ اس کی بابت غیر متاثر ذہن کے ساتھ رائے قائم کر سکے۔
عورت اور مرد کے درمیان تقسیم عمل ے یہ فائدہ بہترین طور پر حاصل ہو جاتا ہے۔ عورت اپنے شعبہ میں مصروف ہوتی ہے اور مرد اپنے شعبہ ہیں ۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے کے معاملات سے براہ راست طور پر غیر متعلق ہو جاتے ہیں۔ ہر فریق اس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ دوسرے فریق کے معاملہ میں غیر متاثرہ ذہن کے ساتھ سوچے اوراپنے بے لاگ مشوروں سے اس کی مدد کر سکے۔
اس بات کی وضاحت کے لیے یہاں عورت کی زندگی سے چند مثالیں نقل کی جاتی ہیں۔
ا۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر جب غارحرا میں پہلی وحی اتری تو آپ کا نپتے ہوئے اپنے گھر تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو۔ گھر والوں نے آپ کو کمبل اڑھا دیا۔ کچھ دیر کے بعد جب آپ کی دہشت کم ہوئی تو آپ نے اپنی اہلیہ خدیجہ ؓبنت خویلد سے وہ پورا قصہ بیان کیا جو غار حرا کی تنہائی میں آپ کے ساتھ پیش آیا تھا۔ آپ نے فرمایا ،یہ واقعہ اتنا سخت تھا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ خدیجہ کے اس وقت کے الفاظ جو تاریخ نے محفوظ رکھے ہیں وہ ایک رفیقۂ حیات کردار کی نہایت اعلیٰ مثال ہیں۔ انھوں نے کہا :
كَلَّا، وَاللهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّك لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدَق الحَدِيثَ، وَتَقرِي الضيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ (مصنف عبد الرزاق,حدیث نمبر 9719 )
ہرگز نہیں، خداکی قسم، اللہ آپ کو بھی رسوا نہ کرے گا ،آپ رشتہ داروں معاملہ میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
2۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قریش مکہ سے وہ معاہدہ کیا جو معاہدۂ کا حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے، تو صحابہ میں سخت بے چینی پھیل گئی۔ کیونکہ یہ معاہدہ بظاہر دب کر کیا گیا تھا اور اس میں کئی باتیں صریح طور پر مخالفین کے حق میں تھیں۔ لوگوں میں اس قدر غم و غصہ تھا کہ معاہدہ کی تکمیل کے بعد جب آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ قربانی کے جانور جوتم اپنے ساتھ لائے ہو، یہیں ذبح کر دو اور سر منڈالو۔ تو ایک شخص بھی اس کے لیے نہ اٹھا ۔ آپ نے تین بار اپنے حکم کو دہرایا پھر بھی سب لوگ خاموش رہے اور کوئی اپنی جگہ سے نہ اٹھا ۔ آپ رنج کی حالت میں وہاں سے لوٹ کر اپنے خیمہ میں گئے جہاں آپ کی اہلیہ ام سلمہؓ موجود تھیں۔ انھوں نے آپ کو غمگین دیکھ کر پو چھا توآپ نے فرمایا کہ آج دہ ہوا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ میں نے مسلمانوں کو حکم دیا مگران میں سے کوئی بھی میرے حکم کی تعمیل کے لیے نہ اٹھا۔ ام سلمہ ؓنے کہا : اے اللہ کے رسول، اگر آپ کی رائے یہی ہے تو آپ میدان میں تشریف لے جائیں اور کسی سے کچھ کہے بغیر اپنی قربانی کا جانور ذبح کریں اور سر منڈالیں ۔ آپ خیمہ سے باہر نکلے اور کسی سے کچھ کہے بغیر اپنی قربانی ذبح کی اور نائی کو بلاکر سر منڈ آیا ۔ جب صحابہ نے یہ دیکھا تو سب نے اٹھ کر اپنی اپنی قربانیاں ذبح کر دیں ۔ اگرچہ ان کے رنج و غم کا عالم یہ تھا کہ جب وہ ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک دوسرے کو کاٹ ڈالیں گے۔
خدیجہؓ اور ام سلمہؓ کو ان نازک مواقع پر جو قیمتی بات سو جھی وہ اس لیے سو جھی کہ وہ اصل معاملہ سے الگ تھیں اور اس بنا پر اس پوزیشن میں تھیں کہ غیر متاثر ذہن کے تحت اس کے بارے میں رائے قائم کر سکیں۔ اگر وہ خود بھی معاملہ میں براہ راست شریک ہو تیں تو اس قسم کی بے لاگ رائے قائم کرنا ان کے لیے ممکن نہ ہوتا ۔