ہندستانی قومیت

اس وقت ہماری گفتگو کاموضوع ہے  —  ہندستانی قومیت کی تشکیل کس طرح ہوتی ہے:

What Constitutes Indian Nationalism

یہ سوال بلا شبہ نہایت اہم قومی سوال ہے۔ اس سوال کے حل پر ملک کی تعمیر وترقی کاانحصار ہے۔ اس اعتبار سے اس سوال کو 1947 ہی میں آخری طو رپر طے ہوجانا چاہیے تھا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی اس سوال پر بحث جاری ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقریباً نصف صدی گزرنے پر بھی اس سوال کا متفق علیہ جواب معلوم نہ کیا جا سکا۔

اس غیر معمولی تاخیر کا سبب کیا ہے۔ میرے نزدیک اس کا بنیادی سبب ہے— ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو ملحوظ نہ رکھنا۔ سماجی زندگی میں ہمیشہ کچھ چیز یں نیشنل(مشترک) ہوتی ہیں، اور کچھ چیزیں پرائیویٹ (غیر مشترک)۔ نیشنل حصہ میں یکسانیت مطلوب ہوتی ہے، اور پرائیویٹ حصہ میں تعدد۔ نیشنل معاملات کو اگر ہر آدمی کے ذوق (taste)پر چھوڑ دیا جائے تو ملک تباہ ہوجائے گا۔اسی طرح پرائیویٹ حصہ میں اگر تمام لوگوں کو ایک روش پر قائم کرنے کی کوشش کی جائے تو ساراسماج انتشارکا شکار ہو کررہ جائے گا۔

اس مسئلہ کے الجھاؤ کے ذمہ دار مختلف فرقوں کے وہ پر جوش لوگ ہیں جو دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہ رکھ سکے۔ انھوں نے یہ غلطی کی کہ ایک نیشنل معاملہ کو پرائیویٹ بنانے کی کوشش کی، اور ایک معاملہ جو پرائیویٹ تھا اس کونیشنل درجہ دینے پر اصرار کیا۔ اس قسم کی غیر فطری اور غیر حقیقت پسندانہ کوشش صرف انتشار پیدا کر سکتی تھی، اور اس نے صرف وہی پیدا کیا۔

مثال کے طور پر ہمارے جن لیڈروں نے ’’ کامن سول کوڈ‘‘ کی دفعہ دستورِ ہند میں شامل کی، انھوں نے ایک پرائیویٹ معاملہ کو نیشنل بنانے کی کوشش کی ۔ کیوں کہ شادی بیاہ یانکاح وطلاق کامعاملہ لوگوں کی پرائیویٹ زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ ہر ایک کاانفرادی معاملہ ہے، نہ کہ پورے ملک کا قومی معاملہ ۔اسی غلطی کایہ نتیجہ ہے کہ اس دستوری دفعہ نے غیر ضروری بحث پیدا کرنے کے سوا اب تک کچھ اور نہیں کیا۔

اسی طرح کچھ مسلمان پاکستان کی جیت پر خوشی مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان ایک مسلم ملک ہے، اس بنا پر یہ ہمارے لیے ایک جذباتی مسئلہ ہے ۔مگر یہ نیشنل معاملہ کو پرائیویٹ معاملہ بناناہے۔ انڈیا ہمار اوطن ہے۔ جب بھی انڈیا کامقابلہ کسی دوسرے ملک سے ہوگا ، خواہ وہ کرکٹ کے میدان میں ہو یاجنگ کے میدان میں ، تو ہمارے جذبات لازمی طور پر اپنے وطن کے ساتھ ہوں گے۔ اس معاملہ میں انفرادی روش ہر گز قابلِ برداشت نہیں ہو سکتی— نان کا من کوکامن بنانا جتنا غلط ہے، اتنا ہی کامن کو نان کامن بنانا بھی غلط ہے۔

اس مسئلہ کو سادہ اور فطری طور پر سمجھنے کی آسان صورت یہ ہے کہ اس کو خاندان کی سطح پر دیکھا جائے۔خاندان کسی قوم کی ابتدائی یونٹ ہوتا ہے۔ بہت سے خاندان کے مجموعہ ہی کانام نیشن ہے۔اب دیکھیے کہ خاندان کی سطح پر اس مسئلہ کی نوعیت کیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ خاندان کی سطح پر ہمیشہ کچھ باتیں کامن انٹرسٹ کی ہوتی ہیں۔ ان میں ہر فیملی ممبر کی رائے صرف ایک ہوتی ہے ۔ اور ان کے علاوہ کچھ چیزیں انفرادی ذوق (taste) کی ہوتی ہیں۔ ان میں ہر فیملی ممبر کی سوچ الگ الگ ہوتی ہے۔

کامن انٹرسٹ میں مثال کے طورپر ایک اہم چیز معاشی یامالی انٹرسٹ ہے۔ وہ چیزیں جوفیملی کے معاشی انٹرسٹ سے تعلق رکھتی ہوں ان میں ہر ایک کی سوچ بالکل یکساں ہوتی ہے۔ ایسے معاملات میں فیملی کے تمام ممبربلا اختلاف ایک ہی نقطۂ نظر کو اپنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسے معاملات میں اگرکئی نقطۂ نظر چلائے جائیں تو خود فیملی کاوجود ہی خطرہ میں پڑجائے گا۔

مگر جہاں تک انفرادی ٹیسٹ کامعاملہ ہے ، تو یہاں ہر ایک کاکیس الگ الگ بن جاتا ہے ۔ مثلاً کوئی ایک قسم کاکھاناپسند کرتا ہے اور کوئی دوسرے قسم کا کھانا ۔ کوئی ویسٹرن لباس پہنتا ہے اور کوئی ایسٹرن لباس۔ کسی کو ادب سے لگائو ہوتا ہے اور کسی کو سائنس سے۔ کوئی کٹرمذہبی ہوتا ہے اور کوئی مذہب کے معاملہ میں لبرل ہوتا ہے۔ کسی کو ایک رنگ کا فرنیچر پسند ہوتا ہے اور کسی کو دوسرے رنگ کا فرنیچر ، وغیرہ۔

اسی دوگانہ اصول پر تمام خاندانوں کا نظام چل رہا ہے۔ خواہ وہ ہندوخاندان ہو یا مسلم خاندان، یا اور کسی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والا خاندان ۔ ہر ایک کے لیے فطرت کا یہی اصول ہے ، اور دنیا میں ہر جگہ یہی اصول کارفرما ہے۔

نومبر 1991 میں شولاپور( مہاراشٹر) میں قومی ایکتا کے موضوع پر ایک سیمینار تھا۔ اس میں مجھے شریک ہونے کا اتفاق ہوا۔ اس موقع پر مقامی ایم ایل اے شری تلسی داس جادھونے بھی تقریر کی۔انھوں نے اپنی تقریر میں کہاکہ میں نے اپنے گھر میں دیکھا ہے کہ میرے باپ نان ویجیٹیرین تھے۔ میری ماں کٹر قسم کی ویجیٹیر ین تھی۔ اس کے باوجود دونوں میں کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا۔ میں نے سالہاسال تک دیکھا ہے کہ میری ماں صبح اٹھ کر پہلے میرے باپ کے لیے میٹ بناتیں اور اس کو کھانے کی میز پر رکھ دیتیں۔ اس کے بعد وہ غسل خانہ میں جا کرنہاتیں اور پھر اپنے لیے دال سبزی والاکھانا بناتیں۔

میری ماں اسی طرح آخر عمر تک کرتی رہیں۔کھانے کے معاملہ میں دونوں کے درمیان اتنا بڑا فرق تھا۔ مگر اس سوال پر دونوں میں کبھی جھگڑا نہیں ہوا۔ دونوں زندگی بھر عزت اور محبت کے ساتھ مل کر رہتے رہے۔

یہی معاملہ ہر فیملی کاہے۔ ہر فیملی میں کچھ چیزیں مشترک ہوتی ہیں اور کچھ چیزیں غیرمشترک۔ مشترک حصہ سے مرادوہ چیزیں ہیں جو سب سے یکساں طور پر تعلق رکھتی ہیں۔مثلا ًخاندان کی عزت، خاندان کا کاروبار، خاندان کی ترقی، خاندان کا تحفظ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو خاندان کے ہر فرد کا مشترک کنسرن ہوتی ہیں۔ ان چیزوں میں فیملی کے ایک فرد اور فیملی کے دوسرے فرد میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

خاندانی زندگی کا دوسراحصہ وہ ہے جو غیر مشترک ہوتا ہے۔ اس میں ہر آدمی اپنے اپنے ذوق پر چلتا ہے۔یہ غیر مشترک حصہ ہے— کھانا پینا، لباس ،تفریحات، شخصی عادتیں، وغیرہ۔ زندگی کا فطری اصول یہ ہے کہ مشترک امور میں تمام افراد کو ایک نقطۂ نظر کا پابند کیا جائے۔مگر غیر مشترک امور میں ہر ایک کوآزادی دےدی جائے کہ وہ اپنی ذاتی پسند سے جوروش چاہیں اختیار کریں۔ وحدت کے ساتھ تنوع ، اور تنوع کے ساتھ وحد ت کے ا سی اصول میں کسی سماج کی کامیابی کاراز چھپاہوا ہے۔

خاندان ہی جیسا معاملہ بڑے پیمانہ پر قوم کابھی ہے۔ یہاں بھی ایک قومی انٹرسٹ ہے، اور دوسراانفرادی انٹرسٹ ۔ اگران دونوں کی علاحدہ علاحدہ رعایت کی جائے اور ان میں کنفیوزنہ کیا جائے تونیشن کامعاملہ درست طو رپر چلتا رہے گا۔ اور اگر دونوں کے فرق کو نظرانداز کردیاجائے اور غیر ضروری طو رپر نظریاتی رولرچلا کردونوں کو ایک کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کے بعد یہ مسئلہ سادہ طور پر ایک سماجی مسئلہ نہیں رہتا، بلکہ وہ ایسے میدانِ جنگ کامسئلہ بن جاتا ہے جو کبھی حل نہ ہو سکے۔

خاندان رشتہ دار ی کی بنیاد پر بنتا ہے اور قوم وطن کی بنیاد پر بنتی ہے۔ قومیت کاسادہ اصول یہ ہے کہ ایک زمینی خطہ میں جو لوگ رہتے ہیں وہ سب ایک قوم ہیں۔مثلاً انڈیا میں جو ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی، رہتے ہیں وہ سب کے سب ایک قوم ہیں۔ خواہ اس واحد قوم کو ہندستانی کہاجائے یا اس کو انڈین یا بھارتی کانام دیاجائے۔

ہندستانی قومیت کے اس انسانی مجموعہ میں ایک چیز کامن ہے، اور اسی کے ساتھ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو انفرادی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ چیزیں جن کا تعلق انڈیا کی انٹگریٹی یا اس کے مجموعی مادی انٹرسٹ سے ہو، اس میں اس خطۂ ارض میں بسنے والے ہرآدمی کانقطۂ نظرایک ہوگا۔ مثلاً کشمیر کامسئلہ کسی مسلمان کے لیے مسلم مسئلہ نہیں ہوگا بلکہ وہ اس کے لیے صرف انڈین مسئلہ ہوگا۔ اسی طرح پنجاب کامسئلہ کسی سکھ کے لیے سکھ مسئلہ نہیں ہو گابلکہ وہ اس کے لیے انڈین مسئلہ ہوگا۔ اسی طرح آسام کامسئلہ کسی کرشچین کے لیے کرشچین مسئلہ نہیں ہوگابلکہ وہ اس کے لیے انڈین مسئلہ ہوگا۔ اسی طرح وہ تمام مسائل جن سے ملک کامجموعی سیاسی ،معاشی، جغرافی انٹرسٹ وابستہ ہو، ان میں کسی بھی فردیا کمیونٹی کی سوچ علاحدہ نہیں ہوگی۔

مگر اس مشترک نیشنل انٹرسٹ کے باہر بہت سی چیزیں ہیں جن کا تعلق انفرادی ذوق سے ہے۔ ان دوسرے پہلوؤں میں ہر ایک کو اپنے نجی دائرہ میں آزادی حاصل ہوگی۔ مثلاً مذہب، خوراک، لباس، زبان، رہن سہن، شادی بیاہ، جیسے معاملات میں ہر ایک کو اپنے محدود دائرہ میں آزادی ہو گی کہ وہ اپنی انفرادی پسند کے مطابق جوانداز چاہے اس کو اختیار کرے۔ یہی طریقہ آج تمام ترقی یافتہ ملکوں میں رائج ہے۔

اس انفرادی آزادی پر اگر کوئی شرط لگائی جا سکتی ہے تو وہ صرف یہ کہ کسی کو اپنی آزادی اس حد تک نہیں بڑھانا چاہیے کہ وہ دوسرے کی آزادی میں خلل اندازی کاسبب بن جائے۔ اس معاملہ میں وہی اصول صادق آتا ہے جو ایک امریکی شہری نے راستہ پر چلنے والے اپنے ایک ہم وطن سے اس وقت کہا تھا جب کہ اس نے اپنی آزادی کاغلط استعمال کرتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کی ناک پر ماردیا تھا۔اس نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ تم کو آزادی حاصل ہے۔مگر تمہاری آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے:

Your freedom ends where my nose begins.

حقیقت یہ ہے کہ ہمالیہ پہاڑ اور بحرہند کے درمیان واقع ایک زمینی خطہ جس کو ہمارے دستور نے ’’ انڈیا ‘‘ کے طور پرڈیفائن کیا ہے، اس میں بسنے والا ہر آدمی انڈین ہے۔ یہ سب کے سب لوگ ایک قوم ہیں۔ سب کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک ہی قومی سوچ کو اپنی شناخت بنائیں اور باہم مل جل کر زندگی گزاریں۔

مگر اس وسیع قومی مجموعہ کے اندر جو افراد آباد ہیں،اپنے نجی دائرہ میں ان کاطرز زندگی (mode of life) یکساں نہیں ہو سکتا۔ اور نہ کسی بھی ملک میں وہ یکساں ہے۔ پہلے دائرہ کے لیے فطرت کاتقاضا ہے کہ سب کا طرزفکر ایک ہو۔مگر عین اسی فطرت کایہ تقاضا بھی ہے کہ نجی دائرہ میں ان کے درمیان تنوع پایا جائے۔ ایک ماں باپ سے پیدا ہونے والے چار بھائی خاندان کے مشترک مفاد کے معاملہ میں تو ایک مشترک طرز فکر کے حامل ہوتے ہیں۔مگر ذاتی دائرہ میں چاروں بھائیوں کامزاج اور چاروں بھائیوں کی پسند الگ الگ بن جاتی ہے۔

معلوم ہوا وہ چیز جس کو ہم انڈین نیشن کہتے ہیں،اس کے دود ائرے ہیں۔ ایک دائرہ میں یکسانیت مطلوب ہے اور دوسرے دائرہ میں تنوع۔ یکسانیت والے دائرہ میں تفرق برداشت نہیں کیا جا سکتا۔مگر تنوع والے دائرہ کامعاملہ اس سے مختلف ہے۔ یہاں کامیاب زندگی حاصل کرنے کاراز صرف ایک ہے، اور وہ ہے ایک دوسرے کے درمیان فرق کوٹالریٹ کرنا۔ پہلے معاملہ میں اگر ’’ من تو شدم تو من شدی‘‘ کااصول کارفرما ہے تو دوسرے معاملہ میںLet us agree to disagreeکا اصول۔

ہندستانی قومیت کی کامیاب تعمیر اسی وقت ممکن ہے جب کہ ان دونوں حصوں کے فرق کو سمجھتے ہوئے ہر ایک کی صحیح رعایت کی جائے۔ پہلے دائرہ میں علاحد گی پسندی اگر اتنی بری چیز ہے جس کو قومی غداری کہا جائے تو دوسرے دائرہ کے معاملہ میں برعکس طور پرWalt Whitmanکایہ قول صادق آتا ہے کہ میں اتنا زیادہ وسیع ہوں کہ ان تمام تضادات کو اپنے اندر سموسکوں:

I am large enough to contain all these contradictions.

)الرسالہ  فروري ،1995(

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom