کمیونل ہارمنی
16اپریل 1994کو بھارتیہ مزدور سنگھ کی دعوت پر میں ناگپور میں تھا۔یہاں ریشم باغ (ناگپور) میں ان کا ایک اجلاس تھا، جس میں میر افتتاحی خطاب تھا۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ آزادی کے بعد ہندوستان وہ ترقی یافتہ ہندوستان نہ بن سکا جو اس کو بننا چاہیے تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ملک میں ایکتا نہ ہونا ہے۔ چنانچہ میں نے اپنا مشن دیش میں کمیونل ہارمنی کو بنایا ہے۔
اس سلسلہ میں جو باتیں کہیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ اس کا سبب دونوں طرف غیر ضروری قسم کی غلط فہمیاں پیدا ہونا ہے۔ دونوں فرقوں میں اگر ملنا جلنا بڑھ جائے تو اپنے آپ غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی۔ اور لوگوں کے درمیان نارمل تعلقات قائم ہو جائیں گے۔
میں نے مختلف واقعات بیان کیے۔ اور واقعاتی مثالوں کے ذریعہ بتایا کہ ہر آدمی انسان ہے۔ کوئی آدمی اگر آپ کو اپنا مخالف دکھائی دے تو یہ اس کی صرف عارضی حالت ہے۔پھر میں نے کہا کہ وندےماترم یا اس طرح کی دوسری چیزوں پر کچھ مسلمان جو اتنا زیادہ بھڑکتے ہیں اس کی وجہ حقیقت نہیں ہے، بلکہ غیر ضروری حساسیت ہے۔1947 سے پہلے اس قسم کی حساسیت مسلمانوں میں موجود نہیں تھی۔ اس لیے خود مسلمان اس قسم کی باتیں کہتے تھے مگر کوئی ردعمل نہیں ہوتا تھا۔ میں نے اقبال کے چند اشعار سنائے۔ مثلاً
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
میرِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہل وطن سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
1947ء سے پہلے کوئی مسلمان اقبال کے ان اشعار پر بھڑکتا نہیں تھا۔ آج کوئی ہندو یا مسلمان ایسی کوئی بات کہہ دے توفوراً اخباروں میں بیانات اور مراسلے چھپنے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نااہل لیڈروں نے غیر ضروری طور پر مسلمانوں کو ان باتوں کے بارے میں حساس بنا دیا ہے۔(ناگپور کا سفر 1994)