تمہید

وطن سے محبت ایک گہرا انسانی جذبہ ہے— ایسا جذبہ جو سماج، ثقافت اور جغرافیے کی سرحدوں سے بالاتر ہے۔ یہ اس قدرتی رشتے کی عکاسی کرتا ہے جو انسان اور اس سرزمین کے درمیان قائم ہوتا ہے جہاں وہ پیدا ہوتا ہے، پرورش پاتا ہے، اور جہاں اس کی شخصیت تشکیل پاتی ہے۔ اپنائیت کا یہ تعلق صرف زمین سے نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس زمین کی یادوں، زبان، روایات اور اجتماعی تجربے سے جُڑا ہوتا ہے۔ وطن سے محبت محض ایک جذباتی وابستگی نہیں، بلکہ شہری شعور اور اخلاقی بیداری کا مظہر بھی ہے۔

صدیوں سے انسان نے اپنی شناخت، طاقت اور تعلق کا سرچشمہ اپنی جائے پیدائش سے حاصل کیا ہے۔ وطن سے محبت کا مطلب ہے اس کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنا، اس کے امن و ترقی کی خواہش رکھنا، اور اس کے مستقبل کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرنا۔ اس محبت میں تنوع کا احترام، ماحول کا تحفظ اور عدل و ہم آہنگی کے لیے جدوجہد شامل ہوتی ہے۔

 وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہی نہیں، بلکہ مختلف فلسفیانہ اور مذہبی روایتوں میں اس کی تائید بھی ملتی ہے۔ مسلم علما ، فقہا اور صوفیا نے اس کو بھی جائز فطری جذبہ کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ مثال کے طور پر معروف فقیہ ملا علی القاری (وفات 1606ء) نے لکھاہےإِنَّ حُبَّ الْوَطَنِ لَا يُنَافِي الْإِيْمَانَ (الأسرار المرفوعة ، صفحہ 181)۔ یعنی، وطن سے محبت ایمان کے خلاف نہیں۔

صحیح البخاری کے شارح ابن بطال (وفات 449ھ) لکھتے ہیں’’اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں وطن سے محبت اور اس کی چاہت رکھ دی ہے— اور نبی ﷺ نے ایسا کیا۔ اور آپ کا عمل اس معاملہ میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘(شرح صحیح البخاری،جلد 4، صفحہ453)

یہ بات درست ہے کہ قرآن و حدیث سے براہ راست طور پر ایسا کوئی حکم نہیں ملتا ہے کہ وطن سے محبت کرنی چاہیے، لیکن بالواسطہ طور پر متعدد حکم ثابت ہیں، جو وطن سے محبت کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ امام ذہبی نے اپنی کتاب میں ان چیزوں کی فہرست دی ہے، جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محبت کرتے تھے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ اپنے وطن سے محبت کرتے تھے:وَيُحِبُّ وَطَنَهُ (سیر اعلام النبلاء،جلد 15، صفحہ394)۔

حدیث کی کتابوں میں ایک مسنون دُعا ان الفاظ میں آئی ہے:اَللّٰہُمَّ حَبِّبْ إِلَیْنَا الْمَدِیْنَۃَ کَحُبِّنَا مَکَّۃ أَ وْ أَشَدَّ (صحیح بخاری، حدیث نمبر 1889؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1376)۔ یعنی، اے اللہ! ہمیں مدینہ سے اسی طرح محبت دے جیسے تُو نے ہمیں مکہ سے محبت دی ہے۔

اس حدیث میں گویا اس بات کا اشارہ ہے کہ ہر انسان کو اپنی جائے پیدائش اور جائے عمل سے محبت کی دعا کرنی چاہیے۔اسی طرح حدیث کی کتابوں میں آتا ہے کہ جب آپ سفر سے واپس آتے، اورمدینہ کی دیواروں کو دیکھتے تو مدینہ کی محبت کے تحت (مِنْ حُبِّهَا) اپنی سواری تیز فرما دیتے (صحیح بخاری، حدیث نمبر 1886)۔

صرف وطن سے نہیں، بلکہ وطن سے تعلق رکھنے والی چیزوں سے بھی محبت ہونی چاہیے۔ مثلاً احد کا پہاڑ مدینہ کے لیے قدرتی ڈھال کا کام کرتا تھا، آپ نےاُحد پہاڑ کے لیے فرمایا: هٰذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2889)۔ یعنی، یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔

پیغمبر اسلام ﷺ کی یہ احادیث وطن سے جُڑے گہرے جذبات اور اخلاقی اقدار کو نمایاں کرتی ہیں۔ شارحینِ حدیث نے بھی ان کی اہمیت پر زور دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ احادیث وطن سے محبت اور تعلق کو جائز قرار دینے کی دلیل ہیں(عمدۃ القاری للعینی، جلد 10، صفحہ 135؛ فتح الباری لابن حجر، جلد 3، صفحہ 621)۔ برصغیر کے معروف محدث اورفقیہ مولانا زکریا کاندھلوی (1898-1982)نے اس کو مزید واضح کیا ہے کہ ’’اسی طرح کا حکم مدینہ کے سوا ان تمام شہروں، علاقوں اور وطنوں کے بارے میں بھی ہے جن کی طرف میلان ہو اورجو محبوب ہوں كَذَٰلِكَ الْحُكْمُ فِي غَيْرِ الْمَدِينَةِ مِنَ الدِّيَارِ الْمَرْغُوبَةِ فِيهَا، وَالْأَ  وْطَانِ الْمَحَبَّبَةِ فِيهَا(اللامع الدراری، جلد 5، صفحہ279)۔

اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ یہ سلسلہ پیغمبر اسلام ﷺکے بعد ختم ہوگیا، بلکہ بعد میں آنے والے متعدد علما، صوفیا اور شعرا کی تحریروں میں بھی اسی جذبے کی بازگشت ملتی ہے۔ مثلاًاسلامی تاریخ کے مشہور زاہداور صوفی بزرگ ابراہیم بن ادہم (وفات 160ہجری)سے منقول ہے:

 مَا قَاسَيْتُ فِيمَا تَرَكْتُ شَيْئًا أَشَدَّ عَلَيَّ مِنْ مُفَارَقَةِ الْأَوْطَانِ (حلیۃ الاولیاء، جلد7، صفحہ380)۔ یعنی، میں نے جن چیزوں کو چھوڑا، اُن میں سے کسی چیز کی تکلیف مجھ پر اتنی شدید نہ تھی جتنی وطن کی جدائی ۔

علامہ راغب اصفہانی پانچویں صدی ہجری (11ویں صدی عیسوی) کے مشہور مسلم عالم، مفسر اور عربی زبان کے ماہر تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب محاضرات الأدباء (جلد دوم، صفحہ 652) میں وطن کی محبت کے موضوع پر دو مستقل عناوینقائم کیے ہیں۔ اس کتاب میں وطن سے محبت کے تعلق سے ایک بامعنی قول یہ ہے:حُبُّ الْوَطَنِ مِنْ طِیْبِ الْمَوْلِدِ (وطن کی محبت نیک فطرت انسان کی صفت ہوتی ہے)۔ اسی طرح ایک اور قول یہ ہے:لَوْلَا حُبُّ الْوَطَنِ لَخَرَبَتْ بِلَادُ السُّوءِ (اگر وطن سے محبت کا جذبہ نہ ہوتا تووہ خطے ویران ہوجاتے، جہاں ظلم و بدعنوانی پائی جاتی ہے)۔

اسلامی لٹریچر میں اس نوعیت کے متعدد دلائل اس حقیقت کی نہایت واضح طور پر نشان دہی کرتے ہیں کہ وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے ، وہ ایمان کے منافی نہیں، بلکہ اخلاقی اقدار کے عین مطابق ہے۔یہ اقوال اس امر کو اجاگر کرتے ہیں کہ کسی انسان کا اپنے وطن سے محبت کرنا تنگ نظری یا تعصب نہیں، بلکہ انسانی اخلاق اور فطرت کا ایک لازمی جزء ہے۔ یہ خلافِ اخلاق بات ہوگی کہ وہ سرزمین جو آپ کو سب کچھ فراہم کرے، آپ کو اس سے کوئی انس یا تعلق نہ ہو۔

 سچی حب الوطنی ایک جوڑنے والی قوت ہوتی ہے، پھوٹ ڈالنے والی نہیں۔ یہ دین کے خلاف نہیں، بلکہ اس کی تقویت کا ذریعہ ہے۔زیر نظر کتابچہ، مولانا وحیدالدین خان کی تحریروں پر مشتمل ہے۔ ان صفحات میں قاری کو وطن سے محبت کا ایک نیا زاویہ دیکھنے کو ملے گا ۔یعنی یہ کہ اخلاص، اخلاق، مثبت طرزِ فکر اور تعمیری سرگرمیوں کے ساتھ وطن سے محبت، ایک بہتر دنیا کی تشکیل کامؤثر ذریعہ ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس کتابچہ کو کامیابی عطا فرمائے، اور مصنف کے لیے صدقہ جاریہ بنائے، آمین۔

ڈاکٹر فریدہ خانم، نئی دہلی

جولائی 2025

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom