سوال و جواب

سوال

 آپ کا ایک خط ’ ماہنامہ تذکیر‘ کے مئی2004(نیز الرسالہ، مئی 2004)کے شمارے میں شائع ہواہے جو آپ نے عبدالسلام اکبانی صاحب (ناگپور)کو لکھا ہے۔ اس میں آپ نے اُس تقریر کا حوالہ دیا ہے جو آپ نے دہلی میں کانسٹی ٹیوشن کلب کے ایک سیمینار میں کی۔ اس میں آپ نے دو قومی نظریے کو علامہ اقبال اور جناح صاحب کے ذہن کی پیداوار قرار دیا اور یہ دلیل دی کہ ہر پیغمبر نے اپنے زمانے کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ’’اے میری قوم‘‘کہا۔ یعنی حاضرین کا عقیدہ یا مذہب چاہے الگ الگ ہو ، ایک بستی یا ایک جغرافیائی وحدت میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے وہ ایک قوم تھے۔

 اس سلسلے میں بندہ کچھ عرض کر نے کی جسارت کرتا ہے ۔ قرآن تو جگہ جگہ ایمان والوں کو يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا(اے ایمان والو) اور کفر والوں کو يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ (اے کافرو)کہہ کر پکارتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ کیا مؤمن اور فاسق برابر ہو سکتے ہیں ۔ پھر قرآن خود جواب دیتا ہے ہر گز نہیں (32:18)۔ وہ کہتا ہے تم جس کو پوجتے ہو اُس کو ہمارا رسول نہیں پوجتا اور جس کو وہ پوجتا ہے اُس کو تم نہیں پوجتے۔ ہمارے رسول اور اس کے ساتھیوں کا اپنا دینِ خالص ، اور تمہارے لیے تمہارا دین ( الکافرون، 109:1-6

 قرآن کہتا ہے کہ مسلمین اور مجرمین کو کیا ہم ایک سطح پر رکھیں؟ تمہیں کیا ہوگیا کیسا غلط گمان ہے تمہارا (68:35-36)۔ قرآن میں اللہ کافروں کو حِزْبُ الشَّيْطٰنِ کہتا ہے اور مومنوں کو حِزْبُ اللّٰهِ کہہ کر ان کو انعام کی بشارت دیتا ہے (58:19, 22) ۔

 اور سورہ التوبہ میں اعلان کرتا ہے کہ مشرکین نجس ہیں اور یہ جو اپنے آپ کو حرم کعبہ کا متولّی سمجھتے تھے ان کو اگلے سال سے حرم کعبہ کے قریب بھی نہ آنے دینا (9:28)اور جو ایمان نہیں لاتے ان سے قتال کریں۔ اور آپ ہیں کہ کافروں اور مومنوں کو ایک ہی قوم ثابت کرنے کی سعی لا حاصل میں ہلکان ہورہے ہیں۔ (محمد صدیق، اسلام آباد)

جواب

1۔ قرآن سے جب یہ ثابت ہوجائے کہ پچھلے نبیوں نے اپنے غیر مسلم مخاطبین سے کہا تھا کہ ’’اے میری قوم‘‘ ( 11:89)۔ تو یہی اُسوہ خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ قرار پائے گا ۔ کیوں کہ قرآن میں رسول اللہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تم بھی وہی کرو جو پچھلے انبیاء نے کیا:فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ (6:90)۔ یعنی، پس تم بھی ان کے طریقہ پر چلو۔

 روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً بھی یہی کیا ۔ چنانچہ غزوہ اُحد کے موقع پر آپ کے مخالفین نے آپ کے اوپر پتھر مارا جو آپ کے چہرے پر لگا۔ اس سے آپ کے چہرے سے خون جاری ہوگیا۔ اُس وقت آپ نے ایک پچھلے رسول کے اُسوہ پر عمل کیا ۔ عبداللہ بن مسعود اس واقعے کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم ‌يَحْكِي ‌نَبِيًّا ‌مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، ضَرَبَهُ قَوْمُهُ وَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ وَيَقُولُرَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3477؛صحیح مسلم، حدیث نمبر 1792)۔ یعنی، ’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں۔ وہ نبیوں میں سے ایک نبی کا حال بیان کررہے ہیں جس کو اُس کی قوم نے مار کر زخمی کیا ۔ وہ اپنے چہرے سے خون پونچھ رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھےاے اللہ ! تو میری قوم کو معاف فرمادے کیوں کہ وہ جانتے نہیں۔‘‘

 اس معاملے میں جو کچھ میں نے کہا ہے وہ نص پر مبنی ہے۔ جب کہ آپ نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ تمام تر قیاس اور استنباط پر مبنی ہے اور یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ قیاس اور استنباط کے ذریعے کسی نص کی تردید نہیں ہوتی۔

 2۔ اس معاملے میں آپ جیسے لوگوں کی اصل مشکل یہ ہے کہ آپ نے انسانیت کو مستقل طور پر دو گروہوں میں بانٹ دیا ہے، مسلم اور کافر ۔ اس تقسیم کی بنا پر آپ لوگوں کے نزدیک ایک طرف ابدی معنوں میں ایک قوم ، مسلم قوم بن گئی ہے اور دوسری طرف ابدی معنوں میں ایک قوم غیر مسلم قوم ۔ یہ تقسیم سراسر غلط ہے۔

 نہ مسلمان کسی نسلی گروہ کا نام ہے اور نہ کافر کسی نسلی گروہ کا نام ۔ دونوں ہی کا مدار اس پر ہے کہ کس کو معرفتِ خداوندی ملی اور کس کو معرفتِ خداوندی نہیں ملی ۔ اس لیے مسلسل ایسا ہوگا کہ مسلمانوں کی بعد کی نسلیں اسلام سے دور ہوتی رہیں گی اور غیر مسلموں میں سے لوگ سچائی کی دریافت کرکے اللہ کےاطاعت گزار بندے بنتے رہیں گے۔

 اس لیے یہ بالکل فطری بات ہے کہ قومیت کا مدار مذہب پر نہ ہو، بلکہ ہوم لینڈ پر ہو۔ کیوں کہ مذہب کی تقسیم بدلتی رہتی ہے ، جب کہ ہوم لینڈ کی تقسیم عموماًنہیں بدلتی ۔

آپ نے اپنے سوال میں جن آیات کا حوالہ دیا ہے، ان کے تفصیلی مطالعہ کے لیے میری تفسیر    ’’تذکیر القرآن‘‘ اور میری کتاب ’’حکمتِ اسلام‘‘ کا چیپٹر’’کفر اور کافر کا مسئلہ ‘‘  ملاحظہ فرمائیے۔

نوٹیہ مضامین اردو اور انگریزی زبانوں میں کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom