ایک مثال
بی بی سی لندن پر ہندی خبروں کے پروگرام کے تحت ہر روز ایک آئٹم ہوتا ہے جس کا مستقل عنوان یہ ہے:بات ایک سفر کی
اس آئٹم کے تحت13نومبر2003کو جو واقعہ بیان کیا گیا وہ یہ تھا۔سمستی پور (بہار) کے ایک صاحب، مشتاق خان نے بتایا کہ وہ اپنی بہن سے ملنے کے لیے کراچی (پاکستان) گئے۔ یہ سفر انھوں نےستمبر1991میں کیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ واگہہ بارڈر سے ٹرین کے ذریعہ روانہ ہوئے۔ جب وہ پاکستانی سرحد (اٹاری) پر پہنچے تو بعض مسافروں نے بتایا کہ موجودہ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے اعلان کیا ہے کہ ہندوستان سے آنے والے مسافروں کی کسٹم کی چیکنگ نہیں کی جائے گی۔ یہ سن کر مشتاق خان صاحب بہت خوش ہوئے۔
مگر جب11ستمبر1991کو ان کی ٹرین لاہور ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو معاملہ بالکل مختلف تھا۔ یہاں کسٹم کا سرکاری عملہ ان لوگوں کے اوپر ٹوٹ پڑا اور نہایت سختی کے ساتھ ان کی جانچ کرنے لگا۔ مشتاق خان صاحب نے پریشان ہوکر کچھ کہا تو کسٹم کا ایک آدمی ان پر برس پڑا۔ اس نے تحقیری انداز میں کہا کہ تم تو شکل ہی سے ہندوستانی نظر آتے ہو۔ مشتاق خاں صاحب نے اس کا جواب ان الفاظ میں دیا کہ ہم ہندوستانیوں کے چہرے سے نورٹپکتا ہے، اور تم پاکستانیوں کے چہرے سے پھٹکار ٹپکتی ہے۔
یہ واقعہ ہندوستان کے عام مسلمانوں کے جذبات کو بتاتا ہے۔ عام مسلمان جو ہندوؤں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں ان کے دلوں میں ہندوستان کے بارے میں اسی قسم کے جذبات ہیں۔ مگر مسلمانوں کے نام نہاد لیڈر اور مسلمانوں کی نام نہاد اردوصحافت کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ انہی لوگوں کی وہ منفی تحریریں اور منفی تقریریں وہ مسئلہ پیدا کرتی ہیں جس کی بناپر کٹر ہندوؤں کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان محب وطن نہیں۔ (ڈائری، 13نومبر2003)