حب الوطنی اور قومی یکجہتی
مسلم علما کی ایک نشست تھی۔ ایک صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ مسلمانوں کے اوپر یہ غلط الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ملک کی مین اسٹریم (مکھیہ دھارا) میں نہیں ہیں، وہ بلاشبہ ہیں۔ میں نے کہا کہ میرے نزدیک یہ شکایت بالکل بجاہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ کیسے۔ میں نے کہا کہ مین اسٹریم میں اپنے آپ کو شامل کرنے کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ آپ یہ مانیں کہ ہندو اور مسلمان دونوں ایک قوم ہیں۔ جب کہ یہی بات اب تک حاصل نہیں ہوئی۔
میں نے کہا کہ ہندوستان کا ہر عالم جو پاسپورٹ بنواتا ہے وہ نیشنلٹی کے خانہ میں اپنے آپ کو اسی طرح انڈین لکھتا ہے جس طرح ایک ہندو لکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندو اور مسلمانوں دونوں کی نیشنلٹی ایک ہے اور دونوں ایک قوم ہیں۔ مگر علما نے ابھی تک اس کا اعلان نہیں کیا۔ 1947سے پہلے مسلم لیگ کی تحریک زیر اثر تمام مسلمانوں کے ذہن میں یہ بھراگیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قوم ہیں۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر وہی ذہن اب تک چلا جارہا ہے۔ دونوں کو نیشنل مین اسٹریم میں لانے کے لیے پہلا کام یہ ہے کہ علما کی طرف سے ایک متفقہ اعلان شائع ہو کہ قومیت کا تعلق وطن سے ہوتا ہے۔ چونکہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا وطن ایک ہے، اس لیے دونوں ایک قوم ہیں۔ پاسپورٹ کا ذاتی فائدہ اٹھانے کے لیے تمام لوگ اس کے فارم پر اپنی نیشنلٹی انڈین بتارہے ہیں۔ مگر اسی بات کا عمومی اعلان کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کیسا عجیب ہے یہ تضاد جو لوگوں کی زندگیوں میں پایا جاتا ہے۔ (ڈائری، 26نومبر1995)